اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِالذِّکۡرِ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیۡزٌ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ جو لوگ اس ذکر کا انکار کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آجائے، حالانکہ یہ معزز کتاب ہے۔

لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ حَکِیۡمٍ حَمِیۡدٍ﴿۴۲﴾

۴۲۔ باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔

42۔ قرآن مجید کسی ایک، دو موضوع پر مشتمل کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ حقائق کا بحر بیکراں ہے۔ اس میں اخلاق، عقائد، احکام، قانون، تہذیب و تمدن اور معاشرت و معیشت اور سیاست سے متعلق حقائق کا بیان ہے۔ کسی باطل قوت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ان حقائق میں سے کسی ایک حقیقت کو غلط ثابت کرے، خواہ قرآن پر اس کا یہ حملہ براہ راست ہو یا کسی سازش اور مکر و حیلہ کے ذریعے سے۔ یہ قرآن انسانیت کے لیے ایک دستور حیات اور اسلام کی حقانیت کے لیے ایک معجزہ ہے۔ ممکن نہیں اس معجزے کو کوئی باطل قوت بے اثر بنا دے اور اس کی معجزاتی حیثیت کو ختم کر دے۔ تاریخ انبیاء میں کسی معجزے کو کوئی طاقت گزند نہیں پہنچا سکی، خواہ فرعون و نمرود جیسے بڑے طاغوت ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تمام انبیاء کے سردار خاتم المرسلین صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عظیم معجزہ قرآن یقینا ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہا ہے اور رہے گا۔ جب دیگر انبیاء کے وقتی معجزے محفوظ اور غالب رہے ہیں تو ختمی مرتبت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ ابدی معجزہ کسی تحریف کنندہ کی زد میں کیسے آ سکتا ہے۔

مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدۡ قِیۡلَ لِلرُّسُلِ مِنۡ قَبۡلِکَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوۡ مَغۡفِرَۃٍ وَّ ذُوۡ عِقَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۴۳﴾

۴۳۔ آپ سے وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ہے، آپ کا رب یقینا مغفرت والا اور دردناک عذاب دینے والا ہے۔

وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕ ءَؔاَعۡجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیٌّ ؕ قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ ؕ وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کو کھول کر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ (کتاب) عجمی اور (نبی) عربی؟ کہدیجئے: یہ کتاب ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور وہ ان کے لیے اندھا پن ہے، وہ ایسے ہیں جیسے انہیں دور سے پکارا جاتا ہو۔

44۔ یہ قرآن اہل ایمان کے لیے ہدایت و شفا ہے، جبکہ یہی قرآن ان منکر وں کے خلاف ایک حجت ہے جن کے لیے یہ قرآن دور سے آنے والی آواز کی طرح ہے جو سنائی دیتی ہے، لیکن سمجھ میں نہیں آتی۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی بات پہلے طے نہ ہوئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس (قرآن) کے بارے میں شبہ پیدا کرنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا رب تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

اِلَیۡہِ یُرَدُّ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ؕ وَ مَا تَخۡرُجُ مِنۡ ثَمَرٰتٍ مِّنۡ اَکۡمَامِہَا وَ مَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِہٖ ؕ وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ اَیۡنَ شُرَکَآءِیۡ ۙ قَالُوۡۤا اٰذَنّٰکَ ۙ مَا مِنَّا مِنۡ شَہِیۡدٍ ﴿ۚ۴۷﴾

۴۷۔ قیامت کا علم اللہ کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے، اس کے علم کے بغیر نہ کوئی پھل اپنے شگوفوں سے نکلتا ہے اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے اور جس دن وہ انہیں پکارے گا: کہاں ہیں میرے شریک؟ تو وہ کہیں گے: ہم آپ سے اظہار کر چکے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی گواہی دینے والا نہیں ہے۔

47۔ قیامت کب برپا ہو گی؟ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ کسی نبی مرسل کو علم ہے، نہ کسی مقرب فرشتے کو۔ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان کے معبود ان کو رزق اور اولاد دیتے ہیں۔ ان کی رد میں فرمایا: اللہ کے علم کے بغیر نہ کوئی پھل اپنے شگوفوں سے نکلتا ہے، نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے۔

اس آیت میں ایک اس علم کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ سے مختص ہے۔ یعنی قیامت کا علم۔دوسرا اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا ذکر ہے، جو ہر چیز کو شامل ہے۔ تیسرا اللہ کی ربوبیت و تدبیر کا ذکر ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔

وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ : یعنی قیامت کے دن مشرکین کو پکارے گا: کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جنہیں تم نے میرا شریک بنایا تھا؟ مشرکین جواب دیں گے: ہم اس سے پہلے بھی اظہار کر چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی ان سے یہی سوال ہوا تھا۔ ممکن ہے یہ سوال قبر میں نکیرین کی طرف سے ہو چکا ہو۔

وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ وَ ظَنُّوۡا مَا لَہُمۡ مِّنۡ مَّحِیۡصٍ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور جنہیں وہ پہلے پکارتے تھے وہ ان سے ناپید ہو جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے لیے کوئی خلاصی نہیں ہے۔

لَا یَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ﴿۴۹﴾

۴۹۔ انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نہیں لیکن جب کوئی آفت آجاتی ہے تو مایوس ہوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔

49۔ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ : یعنی اپنی خواہش کی چیزیں مانگ کر انسان نہیں تھکتا اور نہ ہی وہ کبھی دنیا کی بھلائی سے سیر ہوتا ہے اور جب اس پر کوئی آفت آ جاتی ہے تو وہ بہت جلد مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ہٰذَا لِیۡ ۙ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰی رَبِّیۡۤ اِنَّ لِیۡ عِنۡدَہٗ لَلۡحُسۡنٰی ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا ۫ وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کی لذت چکھائیں تو ضرور کہتا ہے: یہ تو میرا حق تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف پلٹایا بھی گیا تو میرے لیے اللہ کے ہاں یقینا بھلائی ہے، (حالانکہ) کفار کو ان کے اعمال کے بارے میں ہم ضرور بتائیں گے وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور انہیں بدترین عذاب چکھائیں گے۔

50۔ جب آفت کا وقت گزر جاتا ہے اور نعمتیں پھر سے لوٹ آتی ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتا ہے۔ قیامت پراول تو اس کا ایمان ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: اگر قیامت برحق ہے تو میں وہاں بھی عیاشی کروں گا۔ یہ دنیا میں مراعات کا عادی ہے، لہٰذا خیال کرتا ہے کہ آخرت کی مراعات بھی اسی کے لیے ہوں گی۔