آیت 49
 

لَا یَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ﴿۴۹﴾

۴۹۔ انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نہیں لیکن جب کوئی آفت آجاتی ہے تو مایوس ہوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا یَسۡـَٔمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ: اپنی خواہش کی چیزیں مانگ کر انسان نہیں تھکتا، نہ ہی وہ دنیا کی بھلائی سے سیر ہوتا ہے بلکہ یہاں مال و دولت ملنے پر اس کی تشنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ قابل توجہ یہ ہے کہ روح انسان مال و دولت کی فراوانی سے تڑپ جاتی، اس کا سکون چھن جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کو اللہ نے اس دنیا کے مال و دولت اور آسائشوں کے لیے نہیں بنایا۔ اگر اس دنیا کے لیے بنایا ہوتا تو اس دنیا کے ملنے پر سکون حاصل ہوتا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے چونکہ مچھلی کو قدرت نے پانی میں زندگی گزارنے کے لیے خلق کیا ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَـُٔوۡسٌ قَنُوۡطٌ: اگر کوئی آفت سے دوچار ہوتا ہے، جلد مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس نے راز زندگی کو سمجھا نہیں تھا بلکہ وہ زندگی کے بارے میں ایک غلط نظریہ رکھتا ہے۔ وہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ اس دنیامیں عیش و آرام کے لیے آیا ہے۔ اسی وجہ سے اس دنیا سے عیش و آرام کی توقع رکھتا ہے اور اس توقع سے جہاں وہ سیراب نہیں ہوتا وہاں اس کی توقع کے خلاف کسی آفت کے لیے اس نے آپ کو تیار نہیں کیا ہوتا۔ اس لیے اس کے لیے یہ صورت حال ناگہانی ہوتی ہے اور یاس و ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔


آیت 49