آیت 50
 

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ہٰذَا لِیۡ ۙ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰی رَبِّیۡۤ اِنَّ لِیۡ عِنۡدَہٗ لَلۡحُسۡنٰی ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا ۫ وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کی لذت چکھائیں تو ضرور کہتا ہے: یہ تو میرا حق تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف پلٹایا بھی گیا تو میرے لیے اللہ کے ہاں یقینا بھلائی ہے، (حالانکہ) کفار کو ان کے اعمال کے بارے میں ہم ضرور بتائیں گے وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور انہیں بدترین عذاب چکھائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا: جب آفت کا وقت گزر جاتا ہے اور نعمتیں پھر سے لوٹ آتی ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتا ہے۔ یہ نعمت میری اپنی مہارت اور تجربے کی وجہ سے لوٹ آئی ہے ، میرا ہی حق تھا اور ان مراعات کا میں مستحق ہوں۔ وہ اس نعمت کو اللہ کی عنایت نہیں، اپنی مہارت کا نتیجہ خیال کرتا ہے۔

۲۔ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً: میرے مطابق قیامت آنے والی نہیں ہے اور مٹ کر خاک ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں۔

۳۔ اور اگر بالفرض قیامت قائم ہو جاتی ہے تو مجھے وہاں بھی یہی مراعات مل جائیں گی۔ مراعات یافتہ دنیا دار کا ذہن اس طرح کا ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ مراعات کو اپنا حق سمجھتا ہے جو ہر صورت میں اسے ملنی چاہئیں۔ اگر مراعات مل گئیں تو وہ تصور کرتا ہے کہ ہر صورت میں یہ میری ذاتی چیز تھی جو مجھے مل گئی۔ کسی کا اس میں کیا احسان ہے اور کسی کا کیا شکریہ ادا کرنا ہے۔

۴۔ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: ان کافروں کو قیامت کے دن ان اپنے اعمال کی اصلی صورت دکھائیں گے، جرم منوائیں گے، پھر عذاب دیں گے۔


آیت 50