عیاشی کا نفیساتی اثر


وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ہٰذَا لِیۡ ۙ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰی رَبِّیۡۤ اِنَّ لِیۡ عِنۡدَہٗ لَلۡحُسۡنٰی ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا ۫ وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کی لذت چکھائیں تو ضرور کہتا ہے: یہ تو میرا حق تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف پلٹایا بھی گیا تو میرے لیے اللہ کے ہاں یقینا بھلائی ہے، (حالانکہ) کفار کو ان کے اعمال کے بارے میں ہم ضرور بتائیں گے وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور انہیں بدترین عذاب چکھائیں گے۔

50۔ جب آفت کا وقت گزر جاتا ہے اور نعمتیں پھر سے لوٹ آتی ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتا ہے۔ قیامت پراول تو اس کا ایمان ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: اگر قیامت برحق ہے تو میں وہاں بھی عیاشی کروں گا۔ یہ دنیا میں مراعات کا عادی ہے، لہٰذا خیال کرتا ہے کہ آخرت کی مراعات بھی اسی کے لیے ہوں گی۔