آیت 46
 

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا رب تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ: عمل صالح کی دعوت دینے والا، انسانوں کی نجات کے لیے دعوت دے رہا ہے۔ داعی کو اس بات سے غرض ہے کہ یہ انسان ہلاکت میں نہ جائے۔ اس سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ جو مفاد ہے، خود اس عمل صالح بجا لانے کے لیے ہے۔

۲۔ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا: جو برے کاموں کا ارتکاب کرتا ہے اس کا اثر اس برے کام کے ترک کرنے کی دعوت دینے والے پر نہیں پڑتا ۔ خود ہلاکت ابدی سے دوچار ہو جاتا ہے۔

۳۔ وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ: آپ کا رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی مومن کو اس کے اچھے عمل کا ثواب نہ دے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے، اسے عذاب دے۔

یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی نے جرم کا ارتکاب از خود نہیں کیا، کسی نے مجبور کیا ہے، اسے بھی عذاب دے:

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا۔۔۔ (۲ بقرہ:۲۸۶)

اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا۔

جسے کسی اور نے جرم کے ارتکاب پر مجبور کیا ہو اسے اللہ عذاب نہیں دیتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود جرم کے ارتکاب پر مجبور کرے۔

واضح رہے ظلام مبالغے کے لیے نہیں ہے کہ کہا جائے کہ اللہ بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں، تھوڑا ظلم ہو سکتا ہے بلکہ یہ نسبت کے لیے ہے یعنی اللہ کی طرف ظلم کی نسبت نہیں ہو سکتی۔


آیت 46