بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے جب کہ وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

1۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ حیاتِ برزخی سب کے لیے نہیں ہے بلکہ مقرب بارگاہ، صالحین اور شہداء کے لیے ہے یا بہت بڑے مجرموں کے لیے برزخ میں عذاب کی زندگی ہے۔ باقی افراد کے لیے برزخی زندگی نہیں ہے۔ اس نظریے کے مطابق روز قیامت اور روز حساب نہایت قریب ہے کہ جیسے انسان کو موت آتی ہے، قیامت برپا ہو گی تو ایسے محسوس ہو گا گویا دوسرے لمحے میں قیامت برپا ہو گئی۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: فان احدکم اذا مات فقد قامت قیامتہ ۔ (ارشاد القلوب 1: 18) تم میں سے جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کی قیامت فوری قائم ہو جاتی ہے۔

حیات برزخی سب کے لیے ہونے کی صورت میں قیامت کو اس لیے قریب کہا گیا کہ ہر روز گزرنے کے ساتھ ساتھ قیامت نزدیک ہوتی جاتی ہے۔

مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ وَ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے یہ لوگ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں۔

لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ ان کے دل لہویات میں مصروف ہوتے ہیں اور ظالم آپس کی سرگوشیاں چھپاتے ہیں کہ یہ شخص بھی تم جیسا بشر ہے، تو کیا تم لوگ دانستہ طور پر جادو کے چکر میں آتے ہو؟

2۔ کھیلتے ہوئے سنتے ہیں یعنی یہ سنجیدہ نہیں ہوتے کہ نصیحت ان کے دلوں میں اتر جائے اور ان کے دل چونکہ لہویات میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے صرف حق کے لیے ان کے دل میں جگہ نہیں ہوتی۔

قٰلَ رَبِّیۡ یَعۡلَمُ الۡقَوۡلَ فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۫ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۴﴾

۴۔ رسول نے کہا: میرا رب ہر وہ بات جانتا ہے جو آسمان و زمین میں ہے اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

بَلۡ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۭ بَلِ افۡتَرٰىہُ بَلۡ ہُوَ شَاعِرٌ ۚۖ فَلۡیَاۡتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَاۤ اُرۡسِلَ الۡاَوَّلُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ بلکہ وہ کہتے ہیں: یہ (قرآن) تو پریشان خوابوں کا ایک مجموعہ ہے بلکہ یہ اس کا خود ساختہ ہے بلکہ یہ تو شاعر ہے ورنہ یہ کوئی معجزہ پیش کرے جیسے پہلے انبیاء (معجزوں کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔

5۔ مشرکین نبوت کو تسلیم ہی نہیں کرتے، وہ سابقہ انبیاء کو بھی نہیں مانتے تو یہاں پر کیسے کہ دیا کہ سابقہ انبیاء کی مانند معجزے پیش کرو؟

جواب یہ ہے کہ مشرکین کا مؤقف اگرچہ یہ تھا کہ نبوت کا سرے سے وجود نہیں ہوتا، تاہم اگر کوئی وجود ہوتا ہے تو سابقہ انبیاء کی طرح تو ہونا چاہیے۔ آپ کے پاس تو اتنا معجزہ بھی نہیں ہے۔

اگلی آیت میں جواب فرمایا:سابقہ امتوں کو معجزات دیے مگر وہ ایمان نہیں لائے تو کیا تم ایمان لاؤ گے؟ معجزہ تلاش حق کے لیے دلیل و حجت مانگنے والوں کو دکھایا جاتا ہے۔ حق سے فرار کا بہانہ تلاش کرنے والوں کو اتمام حجت کے بعد ہر مطالبے پر معجزہ پیش نہیں کیا جاتا۔

مَاۤ اٰمَنَتۡ قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا ۚ اَفَہُمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ان سے پہلے جس بستی کو بھی ہم نے ہلاک کیا وہ ایمان نہیں لائی، تو کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے؟

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردان (حق) ہی کی طرف وحی بھیجی ہے، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

7۔ نبوت اور انسان کو دو متضاد چیزیں سمجھنے والوں سے خطاب ہے کہ تاریخ انبیاء کا مطالعہ خود نہیں کر سکتے تو اہل مطالعہ سے پوچھو کہ سابقہ انبیاء انسان تھے یا کوئی اور مخلوق۔ وہ سب مردان حق تھے، انسان تھے، البتہ ان کی روحیں تمہاری طرح نہ تھیں وہ وحی الٰہی کے لیے اہل تھیں۔ یہی ان میں اور باقی افراد بشر میں فرق ہے اور یہ فرق بنیادی ہے۔

وَ مَا جَعَلۡنٰہُمۡ جَسَدًا لَّا یَاۡکُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوۡا خٰلِدِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اور ہم نے انہیں ایسے جسم نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ (زندہ) رہنے والے تھے۔

8۔ انبیاء کے جسم ہوتے تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتے تھے اور ہم نے ایسا کوئی زندہ جسم نہیں بنایا جس میں دو چیزیں نہ ہوں: ایک یہ کہ وہ زندہ جسم طعام کھانے والا نہ ہو اور دوسری یہ کہ وہ زندہ جسم ہمیشہ رہنے والا ہو اور اس کے لیے موت نہ ہو۔

ثُمَّ صَدَقۡنٰہُمُ الۡوَعۡدَ فَاَنۡجَیۡنٰہُمۡ وَ مَنۡ نَّشَآءُ وَ اَہۡلَکۡنَا الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۹﴾

۹۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ وعدہ پورا کیا پس ہم نے انہیں اور جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا اور تجاوز کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔

لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ کِتٰبًا فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ بتحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

10۔ اس قرآن میں کسی اور مخلوق کا ذکر نہیں ہے جسے تم اجنبی اور بیگانہ تصور کرو، بلکہ اس میں خود تمہارا ذکر ہے اور تمہارے فائدے کی باتیں ہیں۔ وہ تمہارے لیے دستور حیات و راہ نجات ہے۔