آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الانبیاء

یہ سورہ مبارکہ مکہ میں نازل ہوا۔ اس کی آیات کی تعداد ایک سو بارہ ہے۔ یہ قرائت عاصم کے مطابق ہے۔ دوسرے لوگ ایک سو گیارہ شمار کرتے ہیں اور آیت ۶۶ اور ۶۷ کو ایک آیت شمار کرتے ہیں، اس سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ الانبیاء اس لیے ہوا کہ اس سورۃ میں انبیاء میں سے حضرت نوح، ابراہیم، یعقوب، اسحاق، لوط، موسیٰ، ہارون، داؤد، سلیمان، ایوب، اسماعیل، ادریس، ذوالکفل، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کا تذکرہ ہے۔

اس سورۃ کے دیگر مضامین توحید اور اثبات معاد پر مشتمل ہیں جو مکی سورہائے قرآن کے مخاطبین کی ذہنیت کے مطابق ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے جب کہ وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِقۡتَرَبَ: لوگوں کے لیے حساب نزدیک آگیا۔ خود حساب۔ (نہ وقت، نہ دن) چونکہ اس دنیا کے بعد دوسرے عالم میں وقت اور زمانے کا سوال نہیں اٹھتا۔ وہاں کا زمان و مکان، دنیا کے تصور زمان و مکان سے مختلف ہو گا۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ حیات برزخی سب کے لیے نہیں ہے بلکہ مقرب بارگاہ، صالحین اور شہداء کے لیے یا بہت بڑے مجرموں کے لیے برزخ میں عذاب کی زندگی ہے۔ باقی افراد کے لیے برزخی زندگی نہیں ہے۔ اس نظریے کے مطابق روز قیامت اور روز حساب نہایت قریب ہے کہ جیسے ہی انسان کو موت آتی ہے، قیامت برپا ہو گی تو ایسے محسوس ہو گا کہ گویا دوسرے لمحے میں قیامت برپا ہو گئی۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

من مات فقد قامت قیامتہ ۔ (بحار الانوار ۷۰: ۶۵)

جیسے ہی کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

۲۔ لِلنَّاسِ: میں الناس سے مراد جنس بشر ہے۔

۳۔ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ: وہ اس حساب کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر رہے ہیں۔ چونکہ دنیا میں ان کے دل حبِ دنیا میں مغمور ہیں لہٰذا منہ موڑنا، عدم توجہ کی وجہ سے اور عدم توجہ غفلت کی وجہ سے ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے سامنے حساب کے لیے حاضر ہونے میں کوئی زیادہ دیر نہیں ہے: اِقۡتَرَبَ ۔۔۔۔

۲۔ مؤمن کو حساب کے لیے ہر وقت آمادہ رہنا چاہیے: فِیۡ غَفۡلَۃٍ ۔۔۔۔


آیت 1