آیات 2 - 3
 

مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ وَ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے یہ لوگ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں۔

لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ ان کے دل لہویات میں مصروف ہوتے ہیں اور ظالم آپس کی سرگوشیاں چھپاتے ہیں کہ یہ شخص بھی تم جیسا بشر ہے، تو کیا تم لوگ دانستہ طور پر جادو کے چکر میں آتے ہو؟

تشریح کلمات

مُّحۡدَثٍ:

( ح د ث ) تازہ۔

لَاہِیَۃً:

( ل ھ ی ) لہو۔ بیہودہ اور بے سود عمل۔

تفسیر آیات

۱۔ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ: اس آیت میں ذکر سے مراد وہ کلام ہے جس میں نصیحت ہے اور وہ قرآن ہے۔ محدث، تازہ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس جب بھی قرآنی آیات کی صورت میں کوئی تازہ نصیحت آ جاتی ہے تو یہ اس نصیحت کو کھیلتے ہوئے سنتے ہیں، اس نصیحت کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے ہیں۔

۲۔ لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ: جب ان پر وہ نصیحت دہرائی جاتی ہے تو ان کے دل لہویات میں ہوتے ہیں۔ دل اگر کسی مطلب کی طرف متوجہ ہونا نہیں چاہتا تو آواز تو کانوں میں آتی ہے: اسۡتَمَعُوۡہُ مگر ذہن میں کوئی بات نہیں بیٹھتی۔

۳۔ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا: یہاں تقدیم و تاخیر ہے۔ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا، وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ظلم کا ارتکاب کرنے والے سرگوشی کرتے ہیں۔ النَّجۡوَی خفیہ سرگوشی کو کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ اَسَرُّوا برائے تاکید ہے۔

اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بدل ہو سکتا ہے اَسَرُّوا کی واو کا اور اَسَرُّوا کا تعلق آیت کی ابتدا میں موجود الناس کے ساتھ ہے۔ تیسری توجیہ یہ کرتے ہیں الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا سے پہلے یَقُوۡلُ محذوف ہے تو یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا (۶ انعام: ۲۵) ہے۔ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ اس کا مقول ہے۔ قرآن میں اس کی مثال موجود ہے: الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَدۡخُلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ کُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲۳۔۲۴) یہاں یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۔۔۔۔ (۱۶ نحل:۳۲) ہے۔

چوتھی توجیہ میں کہتے ہیں ضمیر فاعل کے بعد اسم ظاہر کا فاعل آنا بھی ایک عربی لغت ہے۔ جیسے اکلونی البراغیث مشہور جملہ ہے۔

۴۔ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ: وہ بشر اور انسان کو اللہ کی نمائندگی کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی نمائندگی صرف فرشتے کر سکتے ہیں اور جس نے بھی دعوائے نبوت کے ساتھ معجزہ پیش کیا ہے اس نے جادو کیا ہے۔


آیات 2 - 3