برزخی زندگی


اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے جب کہ وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

1۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ حیاتِ برزخی سب کے لیے نہیں ہے بلکہ مقرب بارگاہ، صالحین اور شہداء کے لیے ہے یا بہت بڑے مجرموں کے لیے برزخ میں عذاب کی زندگی ہے۔ باقی افراد کے لیے برزخی زندگی نہیں ہے۔ اس نظریے کے مطابق روز قیامت اور روز حساب نہایت قریب ہے کہ جیسے انسان کو موت آتی ہے، قیامت برپا ہو گی تو ایسے محسوس ہو گا گویا دوسرے لمحے میں قیامت برپا ہو گئی۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت ہے: فان احدکم اذا مات فقد قامت قیامتہ ۔ (ارشاد القلوب 1: 18) تم میں سے جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کی قیامت فوری قائم ہو جاتی ہے۔

حیات برزخی سب کے لیے ہونے کی صورت میں قیامت کو اس لیے قریب کہا گیا کہ ہر روز گزرنے کے ساتھ ساتھ قیامت نزدیک ہوتی جاتی ہے۔

اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ وہ لوگ صبح و شام آتش جہنم کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جس دن قیامت برپا ہو گی (تو حکم ہو گا) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔

46۔ برزخ میں شہیدوں اور بلند درجات والے مومنوں اور سنگین جرائم کے مرتکب کافروں کے لیے برزخی زندگی ہو گی۔ اس آیت سے یہی ثبوت ملتا ہے کہ آل فرعون کو برزخی زندگی میں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور قیامت آنے پر انہیں شدید عذاب دیا جائے گا۔