وَ کَمۡ قَصَمۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ کَانَتۡ ظَالِمَۃً وَّ اَنۡشَاۡنَا بَعۡدَہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور ہم نے کتنی ظالم بستیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری قوم کو پیدا کیا۔

فَلَمَّاۤ اَحَسُّوۡا بَاۡسَنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنۡہَا یَرۡکُضُوۡنَ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ پس جب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا تب وہ وہاں سے بھاگنے لگے۔

لَا تَرۡکُضُوۡا وَ ارۡجِعُوۡۤا اِلٰی مَاۤ اُتۡرِفۡتُمۡ فِیۡہِ وَ مَسٰکِنِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ بھاگو نہیں، اپنی عیش پرستی میں اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، شاید تم سے پوچھا جائے۔

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کہنے لگے: ہائے ہماری تباہی! بے شک ہم لوگ ظالم تھے۔

فَمَا زَالَتۡ تِّلۡکَ دَعۡوٰىہُمۡ حَتّٰی جَعَلۡنٰہُمۡ حَصِیۡدًا خٰمِدِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور وہ فریاد کر رہے ہیں یہاں تک کہ ہم نے انہیں (جڑوں سے) کاٹ کر خاموش کر دیا۔

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔

16۔ لہو و لعب ایک خیالی اور وہمی دل جوئی ہے جس کا کوئی معقول اور مفید نتیجہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ لہویات سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے، وہ نہ تنہائی سے تنگ ہوتا ہے نہ اسے کسی دل جوئی کی ضرورت ہے۔

دوسری آیت میں فرمایا: اگر بفرض محال کسی دل جوئی کی ضرورت ہوتی تو اللہ یہ کام اپنے وجود سے لے سکتا تھا، اتنی بڑی کائنات بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اس کائنات کو عبث نہیں، بلکہ ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔ اگر کوئی آخرت نہیں، حساب کتاب نہیں، جنت و نار نہیں، دوسرے لفظوں میں کوئی ارتقائی سفر نہیں تو دنیا ایک کھیل ہو جائے گی اور انسان ایک بے مقصد کیڑا، ایک نامعقول کھلونا بن جائے گا، جس کو بلا وجہ دکھ درد دیا گیا اور مصائب سہ کر آخر میں خاک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ایسی عبث کاری سے پاک و منزہ ہے۔

لَوۡ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نَّتَّخِذَ لَہۡوًا لَّاتَّخَذۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّاۤ ٭ۖ اِنۡ کُنَّا فٰعِلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اگر ہم کھیل کا ارادہ کرتے تو ہم اسے اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے (تو تمہیں خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی)۔

بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ فَیَدۡمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ؕ وَ لَکُمُ الۡوَیۡلُ مِمَّا تَصِفُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر کچل دیتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے اور تم پر تباہی ہو ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔

18۔ حق اسے کہتے ہیں جو ثبات رکھتا ہو اور جو ثبات نہیں رکھتا وہ باطل ہے۔ مثلاً آپ کی بات امر واقع کے مطابق ہے تو واقع کو حق اور آپ کی بات کو سچ کہتے ہیں۔ اگر آپ کی بات امر واقع کے مطابق نہیں ہے تو آپ کی بات کو جھوٹ اور غیر واقع کو باطل کہتے ہیں۔ لہذا حق اور باطل وجود و عدم کی طرح ہے۔ حق وجود کا نام ہے اور باطل نابودی کا نام ہے۔

وَ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ لَا یَسۡتَحۡسِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ اور آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوقات اسی کی ہیں اور جو اس کے پاس ہیں وہ اللہ کی عبادت سے نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں۔

یُسَبِّحُوۡنَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ لَا یَفۡتُرُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ وہ شب و روز تسبیح کرتے ہیں، تساہل نہیں برتتے۔