وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔ اور (اے رسول) دنیاوی زندگی کی اس رونق کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے آزمانے کے لیے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق بہتر اور زیادہ دیرپا ہے۔

131۔ دنیاوی زندگی کی رونق اور آسائشیں اس قابل نہیں ہیں کہ آپ کی نگاہ میں ان کے لیے کوئی وقعت ہو۔ یہ خیال نہ ہو کہ ان پر اللہ کی طرف سے فیاضی ہو رہی ہے اور مسلمانوں کو محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ یہ آسائشیں ان کے لیے آزمائش ہیں، جو ان کے لیے باعث عذاب و موجب ہلاکت ہوں گی۔ اس کے مقابلے میں جو رزق آپ کو حاصل ہے یعنی ایمان کی حلاوت اور ذکر خدا کی دولت بہتر اور پائیدار ہے۔

وَ اۡمُرۡ اَہۡلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصۡطَبِرۡ عَلَیۡہَا ؕ لَا نَسۡـَٔلُکَ رِزۡقًا ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکَ ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلتَّقۡوٰی﴿۱۳۲﴾

۱۳۲۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے کوئی رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم آپ کو رزق دیتے ہیں اور انجام (اہل) تقویٰ ہی کے لیے ہے۔

132۔ جیسے انسان اپنی ذات کا ذمہ دار ہے کہ نماز پڑھے اور تقویٰ اختیار کرے، اسی طرح اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے کہ ان کو نماز کے لیے آمادہ کرے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ (مریم:55) وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے تھے۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا ۔ (تحریم :6) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش سے بچا لو۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا یَاۡتِیۡنَا بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اَوَ لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی﴿۱۳۳﴾

۱۳۳۔ اور لوگ کہتے ہیں: یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے؟ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں میں سے واضح ثبوت نہیں آیا؟

133۔ معجزے کا مطلب صرف طاقت کا اظہار نہیں بلکہ اس کا مطلب حجت تمام کرنا ہے۔ اگر حجت پوری ہو چکی ہو تو معجزے کے بارے میں ہر مطالبے کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ سابقہ کتابوں میں واضح ثبوت یہی ہے کہ سابقہ امتوں نے حجت تمام ہونے کے بعد بھی معجزے طلب کیے تو جب وہ معجزے دکھائے گئے، وہ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر فوری عذاب نازل ہوا۔

وَ لَوۡ اَنَّـاۤ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِعَذَابٍ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَقَالُوۡا رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّذِلَّ وَ نَخۡزٰی ﴿۱۳۴﴾

۱۳۴۔ اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟

134۔ اگر ان پر حجت پوری ہونے سے پہلے ہم ان پر عذاب کرتے تو حجت اور دلیل ان کے پاس ہوتی اور یہ کہتے: اگر آپ کی طرف سے کوئی رسول آتا تو ہم ضرور اس کی اتباع کرتے۔

قُلۡ کُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوۡا ۚ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ اَصۡحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَ مَنِ اہۡتَدٰی﴿۱۳۵﴾٪

۱۳۵۔ کہدیجئے: سب انتظار میں ہیں لہٰذا تم بھی انتظار کرو پھر عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہ راست پر چلنے والے کون ہیں اور ہدایت پانے والے کون ہیں۔