وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ مَنۡ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ الَّذِیۡ جَآءَ بِہٖ مُوۡسٰی نُوۡرًا وَّ ہُدًی لِّلنَّاسِ تَجۡعَلُوۡنَہٗ قَرَاطِیۡسَ تُبۡدُوۡنَہَا وَ تُخۡفُوۡنَ کَثِیۡرًا ۚ وَ عُلِّمۡتُمۡ مَّا لَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَ لَاۤ اٰبَآؤُکُمۡ ؕ قُلِ اللّٰہُ ۙ ثُمَّ ذَرۡہُمۡ فِیۡ خَوۡضِہِمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ﴿۹۱﴾

۹۱۔اور انہوں نے اللہ کو ایسے نہیں پہچانا جیسے اسے پہچاننے کا حق تھا جب انہوں نے کہا: اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ان سے پوچھیں: پھر وہ کتاب جو موسیٰ لے کر آئے تھے کس نے نازل کی جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی؟ اس کا کچھ حصہ ورق ورق کر کے دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا لیتے ہو اور تمہیں وہ علم سکھا دیا تھا جو نہ تم جانتے ہو نہ تمہارے باپ دادا، کہدیجئے: اللہ ہی نے (اسے نازل کیا تھا)، پھر انہیں ان کی بیہودگیوں میں کھیلتے چھوڑ دیں۔

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی بابرکت ہے جو اس سے پہلے آنے والی کی تصدیق کرتی ہے اور تاکہ آپ ام القریٰ (اہل مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس (قرآن) پر بھی ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔

92۔ اُمَّ الۡقُرٰی کا لفظی ترجمہ بستیوں کا مرکز ہے۔ ساری دنیا کی بستیوں کا مرکز وہ ہے جہاں دنیا کا پہلا خانہ خدا موجود ہے۔ جس کی طرف نماز و حج کے لیے ساری دنیا کی بستیوں سے لوگ رجوع کرتے ہیں۔

مستشرقین کی اسلام دشمنی کس سے پوشیدہ ہے ؟ وہ اس جملے سے یہ مطلب اخذ کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شروع میں اپنے دین کی دعوت کو مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے لیکن بعد میں اپنی توقعات کے خلاف انہوں نے اسے پورے جزیرۃ العرب تک پھیلا دیا نیز بعد میں اس دعوت کو مزید وسعت دی گئی۔ اسلامی دعوت کی آفاقیت کی بات تو اس وقت بھی ہوتی رہی جب اس دعوت کو شعب ابی طالب علیہ السلام میں حوصلہ شکن حالات کا سامنا تھا۔ اس وقت مکہ میں نازل ہونے والے سورﮤ سبا آیت 28 میں فرمایا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ اور مکی سورہ تکویر آیت 27 میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ یہ قرآن عالمین کے لیے ایک نصیحت ہے نیز مکی سورہ انبیاء آیت 107 میں فرمایا: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ ۔ ہم نے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بس تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۹۳﴾

۹۳۔ اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں ہوئی اور جو یہ کہے کہ جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ویسا میں بھی نازل کر سکتا ہوں اور کاش آپ ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھ لیتے جب فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے کہ رہے ہوں: نکالو اپنی جان، آج تمہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم اللہ پر ناحق باتوں کی تہمت لگایا کرتے تھے اور اللہ کی نشانیوں کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔

93۔ اس آیت میں ظلم کی تین بد ترین صورتوں کا بیان ہے۔ 1۔اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا۔ 2۔جس پر وحی نہ ہوئی ہو اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے۔ 3۔ کسی شخص کا قرآن جیسی کتاب کے نازل کرنے کا دعویٰ کرنا۔ پہلی قسم کا ظلم مشرکین انجام دے رہے تھے۔ دوسری قسم کے ظلم کی نسبت پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف دی جا رہی تھی۔ تیسری قسم کا ظلم خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ تمسخر ہے۔ یہ ظلم بھی بعض مشرکین کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آیا ہے کہ یہ تمسخر کرنے والا عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح ہے جو حضرت عثمان کا رضاعی بھائی اور کاتب وحی تھا۔ قرآن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو خدا اور اس کے رسول کا تمسخر اڑائے کافر ہوتا ہے، خواہ وہ کاتب وحی ہی کیوں نہ ہو۔

وَ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ تَرَکۡتُمۡ مَّا خَوَّلۡنٰکُمۡ وَرَآءَ ظُہُوۡرِکُمۡ ۚ وَ مَا نَرٰی مَعَکُمۡ شُفَعَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ اَنَّہُمۡ فِیۡکُمۡ شُرَکٰٓؤُا ؕ لَقَدۡ تَّقَطَّعَ بَیۡنَکُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡکُمۡ مَّا کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ﴿٪۹۴﴾

۹۴۔اور لو آج تم ہمارے پاس اسی طرح تنہا آگئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے وہ سفارشی نہیں دیکھ رہے ہیں جن کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ وہ تمہارے کام بنانے میں تمہارے شریک ہوں گے، آج تمہارے باہمی تعلقات منقطع ہو گئے اور تم جو دعوے کیا کرتے تھے وہ سب ناپید ہو گئے۔

94۔ اس آیت میں زندگی کی فکر انگیز تصویر کشی کی گئی ہے، کیونکہ جب انسان اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو عریاں، محروم، بے بس اور خالی ہاتھ قدم رکھتا ہے نیز جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو بھی محروم، بے بس اور خالی ہاتھ چلا جاتا ہے۔ درمیان میں کچھ دیر کے لیے خواہشات میں مگن رہتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی ؕ یُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ مُخۡرِجُ الۡمَیِّتِ مِنَ الۡحَیِّ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کا شگافتہ کرنے والا ہے، وہی مردے سے زندہ کو اور زندہ سے مردے کو نکالنے والا ہے، یہ ہے اللہ، پھر تم کدھر بہکے جا رہے ہو۔

95۔ وہی ہے جو زمین کی تہ میں بیج کو شگافتہ کر کے درخت اور فصل اگاتا ہے۔ وہی بے جان مادے کی گود میں زندگی کی پرورش کرتا ہے اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے، جیسا کہ بہت سے مردہ مواد ایسے ہیں جو زندہ نامی اجسام کی پیداوار ہیں۔

فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ ۚ وَ جَعَلَ الَّیۡلَ سَکَنًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ حُسۡبَانًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ﴿۹۶﴾

۹۶۔وہ صبح کا شگافتہ کرنے والا ہے اور اس نے رات کو (باعث) سکون اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے، یہ سب غالب آنے والے دانا کی بنائی ہوئی تقدیر ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوۡمَ لِتَہۡتَدُوۡا بِہَا فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرو، اہل علم کے لیے ہم نے اپنی آیات کھول کر بیان کی ہیں۔

96۔ 97۔رات کی تاریکی کو شگافتہ کر کے صبح کی روشنی نکالنا بالکل اسی طرح ہے جس طرح زمین کی تہوں میں دانے کو پھاڑ کر درخت نکالنا ہے، جس طرح مردہ سے زندہ نکالنا ہے۔ چونکہ صبح نور ہے اور حیات ہے، جنبش ہے، صبح سے پھوٹنے والی روشنی اور سورج کی شعاع کو دانے کی شگفتگی اور حیات و زندگی میں بنیادی دخل ہے۔ یعنی نبات و حیات کا مدار صباح و مساء یعنی صبح و شام پر ہے۔

دن کی حرکت، جنبش سے اعصاب بدن تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور فکری و ذہنی پریشانیوں سے دماغ تھکا ہوا ہوتا ہے، رات کے پرسکون ماحول میں انسان اور بہت سے جاندار آرام کے لیے اپنی طاقت دوسرے دن کے لیے چارج کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی عظیم رحمت ہے۔

انسان کی زندگی میں اوقات و زمان کو بڑا دخل ہے۔ اس الہٰی تقویم سے انسان اپنی زندگی کے امور کو منظم کر لیتے ہیں۔ اللہ کی یہ سورج اور چاند پر مشتمل تقویم اس قدر دقیق اور منظم ہے کہ اربوں سال میں بھی ایک سیکنڈ کا فرق نہیں ہوتا۔

ستارے اگرچہ اپنی جگہ ایک مستقل نظام ہیں، اس کے ساتھ اہل ارض کے لیے یہ رہنما کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ یہاں خطاب اہل ارض سے ہے، اس لیے ستاروں کی اس افادیت کا ذکر ہوا۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُسۡتَوۡدَعٌ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّفۡقَہُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔اور وہی ہے جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے پیدا کیا، پھر ایک جائے استقرار ہے اور جائے ودیعت، ہم نے صاحبان فہم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔

98۔ جائے استقرار سے حیات اخروی اور ودیعت کی جگہ سے دنیاوی زندگی مراد ہو سکتی ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ فَاَخۡرَجۡنَا مِنۡہُ خَضِرًا نُّخۡرِجُ مِنۡہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا ۚ وَ مِنَ النَّخۡلِ مِنۡ طَلۡعِہَا قِنۡوَانٌ دَانِیَۃٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّ الزَّیۡتُوۡنَ وَ الرُّمَّانَ مُشۡتَبِہًا وَّ غَیۡرَ مُتَشَابِہٍ ؕ اُنۡظُرُوۡۤا اِلٰی ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ یَنۡعِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکُمۡ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ہم نے ہر طرح کی روئیدگی نکالی پھر اس سے ہم نے سبزہ نکالا جس سے ہم تہ بہ تہ گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے آویزاں گچھے اور انگور، زیتون اور انار کے باغات (جن کے پھل) ایک دوسرے سے مشابہ اور (ذائقے) جدا جدا ہیں، ذرا اس کے پھل کو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو، اہل ایمان کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔

99۔ حیات و نبات میں پانی کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن اللہ پانی کو اس سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہے جتنا انسان اور آج کی سائنس زندگی کے لیے پانی کو ضروری سمجھتی ہے۔

خالق کائنات فرماتا ہے: كَانَ عَرْشُہٗ عَلَي الْمَاۗءِ (ہود: 7) اس کا عرش بھی پانی پر تھا نیز ہر زندہ شے کو پانی ہی کے ذریعے زندگی بخشی: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۔ (انبیاء: 30) اور ہم نے تمام جاندار چیزیں پانی سے بنائیں۔

اس آیت میں فرمایا کہ آسمان سے ہم نے پانی برسایا جس سے ہم نے ہر طرح کی روئیدگی نکالی۔ ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ اس کی ضرورت کے مطابق نشو و نما دی اور یہ بھی ممکن ہے كَانَ عَرْشُہٗ عَلَي الْمَاۗءِ سے مراد ہر طرح اور ہر قسم کی نباتات ہو، کیونکہ نبات کی ہر قسم پانی ہی سے نشو و نما پاتی ہے۔ چنانچہ فضا میں موجود نائٹروجن بجلی کی چمک کے ساتھ بارش کے پانی کے ذریعے زمین پر گرتی ہے اور قدرتی کھاد کی صورت میں زمین کو سرسبز بناتی ہے۔

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔اور ان لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور نادانی سے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ ڈالیں، جو باتیں یہ لوگ کہتے ہیں اللہ ان سے پاک اور بالاتر ہے۔