آیت 98
 

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُسۡتَوۡدَعٌ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّفۡقَہُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔اور وہی ہے جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے پیدا کیا، پھر ایک جائے استقرار ہے اور جائے ودیعت، ہم نے صاحبان فہم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ آیات آفاق کے ذکر کے بعد آیات انفس کا ذکر ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ہی ذات، ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے۔ اس نفس واحد سے مراد حضرت آدمؑ کی ذات بھی ہو سکتی ہے، جیساکہ بعض روایات میں آیا ہے اور وہ اکائی بھی ہو سکتی ہے جس سے خود حضرت آدم و حوا کی خلقت ہوئی ہے۔ یعنی وہ ابتدائی خلیہ (Cell) جس سے حیات کی ابتدا ہوئی۔

۲۔ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُسۡتَوۡدَعٌ: نفس واحد سے پیدا ہونے والے انسان کے لیے ایک مستقر ہے، جائے استقرار اور ایک مستودع ودیعت اور امانت۔ یعنی ایک موقت زندگی ہے اور ایک ہمیشہ کی زندگی ہے۔ ممکن ہے مستقر سے مراد آخرت کی حیات ابدی ہو اور مستودع سے مراد دنیا کی وقتی زندگی ہو، جو ایک ودیعت اور امانت ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ نفس واحدہ سے پیدا ہونے کے بعد کے دو مرحلوں کا ذکر ہے: تم میں سے کچھ لوگ مستقر یعنی پیدائش کے بعد زمین میں مستقر ہو چکے ہیں اور کچھ لوگ ہنوز مُسۡتَوۡدَعٌ جائے ودیعت، گزرگاہ صلب پدر یا رحم مادر میں ہیں۔

مستقر سے مراد رحم مادر اور مُسۡتَوۡدَعٌ سے مراد صلب پدر بھی منقول ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

المستقر الایمان الثابت و المستودی المستعار ۔ (تفسیر العیاشی ۱: ۳۷۲ سورۃ الانعام)

مستقر ثابت ایمان کو اور مستودع وقتی ایمان کو کہتے ہیں۔

میرے نزدیک مستقر سے مراد حیات ابدی اور مستودع سے مراد دنیوی زندگی ہے۔ دیگر موارد پر بھی اس کی تطبیق ہو جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی آیات سے معرفت حاصل کرنا ان لوگوں کے لیے ممکن ہے جو حق کی تلاش میں ہیں اور حق کو سمجھنا چاہتے ہیں: لِقَوۡمٍ یَّفۡقَہُوۡنَ ۔


آیت 98