آیات 100 - 101
 

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔اور ان لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور نادانی سے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ ڈالیں، جو باتیں یہ لوگ کہتے ہیں اللہ ان سے پاک اور بالاتر ہے۔

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک زندگی نہیں ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

تشریح کلمات

خرق:

( خ ر ق ) بے سوچے سمجھے بات کرنا۔

بَدِیۡعُ:

( ب د ع ) الابداع ، کسی کی تقلید اور اقتدا کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا۔ جب لفظ اِبداع اللہ عز و جل کے لیے استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے، بغیر آلہ، بغیر مادہ اور بغیر زمان و مکان کے کسی شے کو ایجاد کرنا اور یہ معنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے۔(راغب)

تفسیر آیات

جنات کی پرستش قدیم بت پرست اقوام میں مشہور تھی۔ خود عربوں میں سے قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ بنی ملیح بھی جنات کی پرستش کرتے تھے۔ روم اور یونان کے خرافاتی خداؤں میں کئی ایک کے نام ملتے ہیں جو جنات سے منسوب ہیں اور جنات کی کئی ایک شکلیں اور سونے کے بت بنائے تھے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کے لیے جنات کو شریک بنایا، حالانکہ ان جنات کا خالق خدا ہے۔ یہ جن اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ وَ خَلَقَہُمۡ کی ضمیر مشرکین کی طرف جائے اور معنی یہ بن سکتے ہیں کہ یہ لوگ جنات کو اللہ کا شریک بناتے ہیں حالانکہ خود ان کا خالق اللہ ہے۔ لہٰذا انہیں اپنے خالق ہی کی پرستش کرنی چاہیے۔

وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ: اللہ کے لیے اولاد کا تصور گھڑنے والوں میں تو اہل کتاب بھی شامل ہیں جو عزیر اور مسیح علیہما السلام کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ بعض مشرکین فرشتوں کو بنات اللہ یعنی اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں اور کچھ اقوام ایسی بھی ہیں جو اپنے آپ کو فرزندان خدا سمجھتی ہیں۔

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس میں کسی اور چیز کی شرکت کا امکان بھی نہیں ہے اور یہ کہ اللہ کے لیے بیٹے بیٹیاں نہیں ہیں کیونکہ اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ اولاد تو دو جفتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کا کوئی جفت نہیں ہے۔ وہ تو ہر چیز کا خالق ہے۔ شان الٰہی کے لیے خالق ہونے میں عظمت ہے، جب کہ صاحب اولاد ہونا غیر ممکن ہونے کے علاوہ شان خداوندی کے منافی بھی ہے۔

اہم نکات

۱۔ راہ راست سے پھسلنے کے بعد انسان ایسے گہرے کھڈ میں جا گرتا ہے کہ جنات، پتھروں اور جانوروں تک کی پرستش کرنے لگ جاتا ہے۔

۲۔ یہ بت پرستوں سے مخصوص نہیں، مادہ پرستوں کا بھی یہی حال ہے۔


آیات 100 - 101