آیت 92
 

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی بابرکت ہے جو اس سے پہلے آنے والی کی تصدیق کرتی ہے اور تاکہ آپ ام القریٰ (اہل مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس (قرآن) پر بھی ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ہٰذَا کِتٰبٌ: جیسا کہ دوسری کتابیں اللہ نے نازل فرمائی ہیں، یہ قرآن بھی اسی طرح کی ایک بابرکت کتاب ہے۔ اس کتاب کا پربرکت ہونا خود اس کی حقانیت کی دلیل ہے۔ اس کتاب کی برکتوں سے انسانیت نے جہل و نادانی اور غربت و افلاس کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر ایک تمدن و خوشحالی اور علم کی روشنی میں قدم رکھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ انسان نے اس نعمت کی بھی ناشکری کی اور خود اپنے ہاتھوں مادیت کی اتھاہ اور تاریک گہرائیوں میں جا پہنچا۔

۲۔ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی: ام القریٰ مکہ ہے، جس کا لفظی ترجمہ ہے: بستیوں کا مرکز۔ یہ وہ مرکز ہے جہاں سے اسلامی انقلاب برپا ہوا۔ جہاں پر وحی الٰہی کا نزول شروع ہوا۔ جہاں سے اسلامی دعوت پھیلی۔ جہاں بیت اللہ، دنیا کا پہلا خانہ خدا موجود ہے۔ جس کی طرف دنیا کی ساری بستیوں سے لوگ نماز کے لیے رخ کرتے ہیں۔ جہاں حج کے لیے دنیا کے تمام مسلمان رجوع کرتے ہیں۔ ممکن ہے مکہ کو مرکزی حیثیت جغرافیہ کی حیثیت سے حاصل نہ ہو کیونکہ قرآن کا جغرافیائی موضوعات سے ربط نہیں ہے بلکہ مکہ کی مرکزی حیثیت روحانی حوالوں سے ہے کہ یہ تمام اقلیموں کی روحانی تربیت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ مزید تفصیل کے لیے سورہ بقرہ آیت ۱۴۲ ملاحظہ فرمائیں۔

دعوت اسلام کی آفاقیت: بعض مستشرقین جو ہمیشہ اسلام کے خلاف کسی کمزوری کی تلاش میں ہوتے ہیں، اس آیت سے اپنے مطلب کی بات ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں: مکہ والے اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کی تنبیہ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا سے معلوم ہوتا ہے کہ محمدؐ شروع میں اپنی دعوت کو صرف مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔اس کے بعد اپنی توقعات کے برخلاف اس دعوت کو جزیرہ عرب تک پھیلا دیااور ایسے اتفاقات سامنے آئے جن کا پہلے اندازہ نہیں تھا، جن کی بنا پر اس دعوت کو مزید وسعت دے دی گئی۔ مثلاً مدینہ کی طرف ہجرت اور وہاں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد رسول نے اسلامی دعوت کا دائرہ پھیلا دیا۔

جب کہ اسلامی دعوت کی آفاقیت کی بات تو اس وقت بھی ہوتی رہی، جب یہ دعوت ابھی مکہ کی وادیوں کے اندر ہی تھی۔ شعب ابو طالب میں اس دعوت کو سخت ترین اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا تھا۔ اس وقت مکہ میں نازل ہونے والے سورہ سبا میں فرمایا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (۳۴ سبا: ۲۸)

اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اس مکی سورہ میں چند آیات پہلے فرمایا:

اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٰی لِلۡعٰلَمِیۡنَ ۔ (۶ انعام: ۹۰)

یہ تو عالمین کے لیے فقط ایک نصیحت ہے۔

مکی سورہ الانبیاء میں فرمایا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ( ۲۱ انبیاء:۱۰۷)

اور (اے رسول!) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اس سے معلوم ہوا، مکہ کے اطراف سے مراد وہ تمام آبادیاں ہیں جہاں جہاں اس مرکز سے اٹھنے والی دعوت پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ۔۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۹)

اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔

۳۔ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ: اس قرآن پر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ یہ قرآن سعادت اخروی کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ آخرت کی سعادت کی طرف قرآن کی اہم ترین ہدایت یہ ہے: عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۔ وہ اپنی نمازوں کی پابندی کریں۔

اہم نکات

۱۔ قرآن کی حقانیت پر اس کی برکتیں اور سابقہ کتب کی تصدیق دلیل ہے۔

۲۔ ایمان بالقرآن اور نماز کی پابندی، ابدی زندگی (آخرت) پر ایمان کا لازمہ ہے: وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۔


آیت 92