بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک زندگی نہیں ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

100۔ 101 جنات کی پرستش قدیم بت پرست اقوام میں مشہور تھی۔ روم اور یونان کے خرافاتی خداؤں میں کئی ایک خداؤں کے نام ملتے ہیں جو جنات سے منسوب ہیں اور جنات کی کئی ایک شکلیں اور سونے کے بت بنائے تھے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کے لیے جنات کو شریک بنایا حالانکہ ان جنات کا خالق خدا ہے۔ یہ جن اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ خَلَقَہُمۡ کی ضمیر مشرکین کی طرف جائے اور معنی یہ بن سکتے ہیں کہ یہ لوگ جنات کو اللہ کا شریک بناتے ہیں، حالانکہ خود ان لوگوں کا خالق اللہ ہے۔ لہٰذا انہیں اپنے خالق ہی کی پرستش کرنی چاہیے۔

اللہ کے لیے اولاد کا تصور گھڑنے والوں میں تو اہل کتاب بھی شامل ہیں جو عزیر علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ بعض مشرکین فرشتوں کو بنات اللہ یعنی اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں اور کچھ اقوام ایسی بھی ہیں جو اپنے آپ کو فرزندان خدا سمجھتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس میں کسی اور چیز کی شرکت کا امکان بھی نہیں ہے اور یہ کہ اللہ کے لیے بیٹے بیٹیاں نہیں ہیں کیونکہ اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ اولاد تو جفت کے درمیان پیدا ہوتی ہے اللہ کا کوئی جفت نہیں ہے، وہ تو ہر چیز کا خالق ہے۔ شان الہی کے لیے خالق ہونے میں عظمت ہے، جب کہ صاحب اولاد ہونا ناممکن ہونے کے علاوہ شان خداوندی کے منافی بھی ہے۔

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ فَاعۡبُدُوۡہُ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲ ۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگران ہے ۔

لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جب کہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، بڑا باخبر ہے۔

103۔ نگاہوں کا اپنا ادراک ہوتا ہے اور عقل کا اپنا ادراک ہوتا ہے۔ آیت نے صاف الفاظ میں فرمایا: نگاہیں اللہ کا ادراک نہیں کر سکتیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کا وجود ایسا نہیں جو نگاہوں کی حس و ادراک کے دائرے میں آجائے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: آنکھیں صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں جو رنگ اور کیفیت پر مشتمل ہوں۔ واللہ تعالیٰ خالق الاشیاء والکیفیۃ ۔ اللہ تعالیٰ تو رنگوں اور کیفیت کا خالق ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: وکیف یجری علیہ ما ھو اجراہ ویعود الیہ ما ھو ابداہ و یحدث فیہ ما ھو احدثہ ۔ (الاحتاج 1 :198) بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے؟ اور جو چیزیں اس نے ایجاد کی ہوں وہ اس کی طرف کیونکر عائد ہو سکتی ہیں؟ اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟

قَدۡ جَآءَکُمۡ بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنۡ اَبۡصَرَ فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ عَمِیَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت افروز دلائل آ گئے ہیں، اب جس نے آنکھ کھول کر دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بن گیا اس نے اپنا نقصان کیا اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔

104۔ جس سطح کے دلائل رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ناخواندہ قوم کے سامنے پیش فرمائے وہ نہ صرف ان کی فکری سطح سے بلند ہیں بلکہ اہل کتاب کی فکری سطح سے بھی بلند ہیں۔ موجودہ توریت اور انجیل کی خرافات کا قرآن کی متانت کے ساتھ موازنہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔

وَ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ وَ لِیَقُوۡلُوۡا دَرَسۡتَ وَ لِنُبَیِّنَہٗ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور ہم اس طرح آیات مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں جس سے وہ یہ کہیں گے کہ آپ نے (کسی سے قرآن) پڑھا ہے اور اس لیے بھی کہ ہم یہ بات اہل علم پر واضح کر دیں ۔

اِتَّبِعۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو وحی ہوئی ہے اس کی اتباع کریں، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور مشرکین سے کنارہ کش ہو جائیں۔

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکُوۡا ؕ وَ مَا جَعَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو یہ لوگ شرک کر ہی نہیں سکتے تھے اور ہم نے آپ کو ان پر نگہبان مقرر نہیں کیا اور نہ ہی آپ ان کے ذمے دار ہیں۔

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔گالی مت دو ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔

108۔ مومنین اگر مشرکین کے خداؤں کو دشنام دیں تو جاہلی تعصب کی بنا پر مقابلے میں وہ اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے۔ لہٰذا اس کے محرک اور سبب تم نہ بنو۔

گالی اور دشنام اپنی جگہ ایک برا عمل ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس برے کام کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ برائت اور سب ایک چیز ہے۔ پاک کردار لوگ بد کرداروں کی بد کرداری سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، جو برائت ہے، جبکہ گالی گلوچ، گھٹیا لوگوں کا کام ہے۔ لہٰذا اعلیٰ کردار کے مالک لوگ برائت کرتے ہیں، سب نہیں کرتے۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ ۙ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی معجزہ آئے تو یہ اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے، کہدیجئے: معجزے صرف اللہ کے پاس ہیں، لیکن (مسلمانو!) تمہیں کیا معلوم کہ معجزے آ بھی جائیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

10۔ سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہٹ دھرم مشرکین کی طرف سے معجزے کے مطالبے پر بعض اہل ایمان کا بھی یہی خیال تھا۔ چنانچہ ان سے فرمایا: تمہیں کیا معلوم کہ معجزہ دکھانے کی صورت میں یہ ایمان لے آئیں گے؟ چنانچہ تاریخ انبیاء شاہد ہے کہ دریا شق ہو جاتا ہے، پہاڑ سے اونٹنی نکل آتی ہے، مردے زندہ کیے جاتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے انکار کرنا تھا وہ منکر رہے۔

وَ نُقَلِّبُ اَفۡـِٕدَتَہُمۡ وَ اَبۡصَارَہُمۡ کَمَا لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٖۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ نَذَرُہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۱۰﴾٪

۱۱۰۔اور ہم ان کے دل و نگاہ کو اس طرح پھیر دیں گے جیسا کہ یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑے رکھیں گے۔