ام القری اور مستشرقین کے باطل نظریے


وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۹۳﴾

۹۳۔ اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں ہوئی اور جو یہ کہے کہ جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ویسا میں بھی نازل کر سکتا ہوں اور کاش آپ ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھ لیتے جب فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے کہ رہے ہوں: نکالو اپنی جان، آج تمہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم اللہ پر ناحق باتوں کی تہمت لگایا کرتے تھے اور اللہ کی نشانیوں کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔

93۔ اس آیت میں ظلم کی تین بد ترین صورتوں کا بیان ہے۔ 1۔اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا۔ 2۔جس پر وحی نہ ہوئی ہو اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے۔ 3۔ کسی شخص کا قرآن جیسی کتاب کے نازل کرنے کا دعویٰ کرنا۔ پہلی قسم کا ظلم مشرکین انجام دے رہے تھے۔ دوسری قسم کے ظلم کی نسبت پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف دی جا رہی تھی۔ تیسری قسم کا ظلم خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ تمسخر ہے۔ یہ ظلم بھی بعض مشرکین کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آیا ہے کہ یہ تمسخر کرنے والا عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح ہے جو حضرت عثمان کا رضاعی بھائی اور کاتب وحی تھا۔ قرآن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو خدا اور اس کے رسول کا تمسخر اڑائے کافر ہوتا ہے، خواہ وہ کاتب وحی ہی کیوں نہ ہو۔