آیت 94
 

وَ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ تَرَکۡتُمۡ مَّا خَوَّلۡنٰکُمۡ وَرَآءَ ظُہُوۡرِکُمۡ ۚ وَ مَا نَرٰی مَعَکُمۡ شُفَعَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ اَنَّہُمۡ فِیۡکُمۡ شُرَکٰٓؤُا ؕ لَقَدۡ تَّقَطَّعَ بَیۡنَکُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡکُمۡ مَّا کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ﴿٪۹۴﴾

۹۴۔اور لو آج تم ہمارے پاس اسی طرح تنہا آگئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے وہ سفارشی نہیں دیکھ رہے ہیں جن کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ وہ تمہارے کام بنانے میں تمہارے شریک ہوں گے، آج تمہارے باہمی تعلقات منقطع ہو گئے اور تم جو دعوے کیا کرتے تھے وہ سب ناپید ہو گئے۔

تشریح کلمات

خَوَّل:

( خ و ل ) التخویل ۔ اس کے اصل معنی حشم و خدم عطا کرنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰی: اس آیت میں دنیاوی زندگی کی ایک نہایت ہی فکر انگیز تصویر کشی کی گئی ہے کہ یہ انسان اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو عریاں، محروم، بے بس، ناتواں اور خالی ہاتھ قدم رکھتا ہے اور جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو بھی محروم، بے بس، ناتواں اور خالی ہاتھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ درمیان میں کچھ دیر کے لیے مال و دولت، جاہ و سلطنت، خواہشات و لذت کے سراب میں مگن رہتا ہے اور یہ خیال ذہن میں آتا ہی نہیں کہ آخر میں یہاں کس لیے آیا تھا، کس لیے یہاں موجود ہوں اور کہاں جانا ہے۔ اس زندگی کی چھوٹی اور حقیر چیز بھی اس کے لیے قابل توجہ ہو گی، مگر اصل مقصد حیات سے غافل۔ حدیث میں آیا:

الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا۔ (بحار الانوار ۴: ۴۳ ۔تفسیر ثعلبی ۴: ۱۹۸، التسہیل لعلوم التنزیل لابن جزی ۳: ۷۷ اور دیگر کتب تفاسیر میں اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دی گئی ہے جب کہ روح المعانی ۲۷: ۱۶۲، الواقعۃ: ۹۶ میں اس حدیث کی نسبت امام علی علیہ السلام کی طرف دی گئی ہے۔ حلیۃ الاولیاء ۷: ۵۲ میں ابو نعیم اصفہانی نے اسے سفیان ثوری کی طرف منسوب کیا ہے۔ ظاہراً ایسا لگتا ہے کہ سفیان ثوری نے امام علی علیہ السلام سے اسے حاصل کیا ہے کیونکہ سفیان ثوری کا شمار زہاد و متصوفہ میں ہوتا ہے جو اپنے طرق کو امام علی علیہ السلام تک پہنچاتے ہیں۔)

لوگ خواب غفلت میں ہوتے ہیں۔ جب مر جاتے ہیں تو بیدار ہو جاتے ہیں۔

۲۔ وَّ تَرَکۡتُمۡ مَّا خَوَّلۡنٰکُمۡ: جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں مال و دولت، اولاد، حشم دیا تھا، وہ ساتھ نہیں ہے۔

۳۔ وَ مَا نَرٰی مَعَکُمۡ شُفَعَآءَکُمُ: جن معبودوں کو تم نے اپنے لیے شفیع بنایا تھا۔ اَنَّہُمۡ فِیۡکُمۡ شُرَکٰٓؤُا یعنی فی ربوبیتکم شرکاء اللہ ۔ جن کو تم نے رب ہونے میں اللہ کے ساتھ شریک بنایا تاکہ وہ تمہاری سفارش کریں، وہ آج نظر نہیں آتے۔

۴۔ لَقَدۡ تَّقَطَّعَ: تمام وسائل منقطع ہو جاتے ہیں اور جن جن کو شفیع اور وسیلہ سمجھتے تھے، وہ بھی ایک خیال و وہم سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوتے۔ دنیا میں جو زعم اور خود ساختہ نظریات قائم کر رکھے تھے، وہ یہاں بے بنیاد ثابت ہوئے۔

یہ آیت اگرچہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مگر اس کی تعبیر عام ہے کہ دنیاوی زندگی اگر آخرت کی ابدی زندگی کے لیے مزرعہ نہ بنائی جائے تو سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔

اہم نکات

۱۔ دنیا برائے دنیا سراب ہے، جب کہ دنیا برائے آخرت نجات ہے۔

۲۔ آغاز و انجام، زندگی میں مقصد زندگی کا ایک اہم درس ہے: وَ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا ۔۔۔۔


آیت 94