وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی بابرکت ہے جو اس سے پہلے آنے والی کی تصدیق کرتی ہے اور تاکہ آپ ام القریٰ (اہل مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس (قرآن) پر بھی ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔

92۔ اُمَّ الۡقُرٰی کا لفظی ترجمہ بستیوں کا مرکز ہے۔ ساری دنیا کی بستیوں کا مرکز وہ ہے جہاں دنیا کا پہلا خانہ خدا موجود ہے۔ جس کی طرف نماز و حج کے لیے ساری دنیا کی بستیوں سے لوگ رجوع کرتے ہیں۔

مستشرقین کی اسلام دشمنی کس سے پوشیدہ ہے ؟ وہ اس جملے سے یہ مطلب اخذ کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں کہ محمد ﷺ شروع میں اپنے دین کی دعوت کو مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے لیکن بعد میں اپنی توقعات کے خلاف انہوں نے اسے پورے جزیرۃ العرب تک پھیلا دیا نیز بعد میں اس دعوت کو مزید وسعت دی گئی۔ اسلامی دعوت کی آفاقیت کی بات تو اس وقت بھی ہوتی رہی جب اس دعوت کو شعب ابی طالب علیہ السلام میں حوصلہ شکن حالات کا سامنا تھا۔ اس وقت مکہ میں نازل ہونے والے سورﮤ سبا آیت 28 میں فرمایا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ اور مکی سورہ تکویر آیت 27 میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ یہ قرآن عالمین کے لیے ایک نصیحت ہے نیز مکی سورہ انبیاء آیت 107 میں فرمایا: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ ۔ ہم نے تو آپ ﷺ کو بس تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔