آیات 96 - 97
 

فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ ۚ وَ جَعَلَ الَّیۡلَ سَکَنًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ حُسۡبَانًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ﴿۹۶﴾

۹۶۔وہ صبح کا شگافتہ کرنے والا ہے اور اس نے رات کو (باعث) سکون اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے، یہ سب غالب آنے والے دانا کی بنائی ہوئی تقدیر ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوۡمَ لِتَہۡتَدُوۡا بِہَا فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرو، اہل علم کے لیے ہم نے اپنی آیات کھول کر بیان کی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ تدبیر کائنات اور ربوبیت کے باہمی ربط کے سلسلے میں یہ استدلال جاری ہے۔ رات کی تاریکی کو شگافتہ کر کے صبح کی روشنی نکالنا بالکل اسی طر ح ہے جس طرح زمین کی تہوں میں دانے کو پھاڑ کر درخت نکالنا ہے اور مردہ سے زندہ نکالنا ہے۔ چونکہ صبح، نور اور حیات ہے، جنبش ہے۔ صبح سے پھوٹنے والی روشنی اور سورج کی شعاع کو دانے کی شگفتگی اور حیات و زندگی میں بنیادی دخل ہے۔ یعنی نبات و حیات کا مدار صباح مساء یعنی صبح و شام پر ہے۔

۲۔ اس نے رات کو سکون کے لیے بنایا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:

وَّ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ لِبَاسًا وَّ جَعَلۡنَا النَّہَارَ مَعَاشًا (۷۸ نباء : ۱۰ ۔ ۱۱)

اور رات کو ہم نے پردہ قرار دیا اور دن کو ہم نے معاش (کا ذریعہ) بنایا۔

دن کی حرکت اور جنبش سے اعصاب بدن تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور فکری و ذہنی پریشانیوں سے دماغ تھکا ہوا ہوتا ہے۔ رات کے پرسکون ماحول میں انسان اور بہت سے جاندار آرام کے لیے اپنی طاقت دوسرے دن کے لیے چارج کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی عظیم رحمت ہے۔ اس سلسلے میں قرآن فرماتا ہے:

وَ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (۲۸ قصص: ۷۳)

اور یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو (یکے بعد دیگرے) بنایا تاکہ تم (رات میں) سکون حاصل کر سکو اور (دن میں) اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر بجا لاؤ۔

۳۔ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ حُسۡبَانًا: سورج اور چاند کو حساب کے لیے بنایا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ۔۔۔۔ (۱۰یونس: ۵)

وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو۔۔۔۔

انسان کی زندگی میں اوقات و زمان کو بڑا دخل ہے۔ اس الٰہی تقویم سے انسان اپنی زندگی کے امور منظم کر لیتا ہے۔ سورج اور چاند پر مشتمل اللہ کی یہ تقویم اس قدر دقیق اور منظم ہے کہ اربوں سال میں بھی ایک سیکنڈ کا فرق نہیں ہوتا۔

۴۔ آخر میں فرمایا : یہ عزیز و علیم کی تقدیر سازی ہے: ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۔ اس تعبیر سے تقدیر الٰہی کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نظام معین فرمایا ہے اور اس نظام میں ہر چھوٹی بڑی چیز کا طریقہ عمل مقرر ہے۔ اس کائنات پر ایک نہایت محکم اور مضبوط قانون حاکم ہے۔ اسی وضع کردہ قانون کو سنت الٰہی بھی کہتے ہیں۔ یہی تقدیر ہے۔ انسان کسی پیش بند تقدیر کا پابند اور مجبور نہیں ہے بلکہ وہ اس تکوینی قانون اور سنت الٰہی کے دائرے میں اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل کسی مناسب موقع پر بیان کریں گے۔ انشاء اللہ۔

۵۔ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوۡمَ: ستاروں کا اگرچہ اپنی جگہ ایک مستقل نظام ہے، اس کے ساتھ اہل ارض کے لیے یہ رہنما کا کام بھی دیتے ہیں۔ یہاں خطاب اہل ارض سے ہے، اس لیے ستاروں کی اس افادیت کا ذکر ہوا۔ سمندروں اور بیابانوں میں ستاروں کی گردش سے زمانہ قدیم سے کلدانیوں اور مصریوں نے بھی مشرق و مغرب، شمال و جنوب کا تعین کر لیا تھا، جس سے وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے رہنمائی لیتے تھے۔ حدیث میں ہے:

تعلموا من النجوم ما تھتدون بہ فی ظلمات البر و البحر ثم انتھوا ۔ (الدر المنثور ۳: ۳۲۸۔بحار الانوار، ۵۵: ۲۷۵ ۔بحار میں یہ روایت اہل سنت کے طریق سے ابن عمر سے نقل کی گئی ہے۔اہل سنت کتب احادیث میں اس قول کی نسبت عمر بن خطاب کی طرف دی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:الدر المنثور۳: ۳۲۸۔جامع الاحادیث ۲۷: ۷۹۔ جب کہ آلوسی نے روح المعانی میں ابن عمر کے طرق سے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے ۷:۲۳۴ )

علم نجوم صرف اس قدر سیکھو جس سے سمندروں اور بیابانوں کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ پھر رک جاؤ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے دن اور رات کے بارے میں فرمایا:

لو کان واحد منھما سرمداً علی العباد لما قامت لھم معایش ۔ (بحار الانوار ۳: ۱۹۱)

اگر دن اور رات میں سے کسی ایک کو ہمیشہ رکھا جاتا تو زندگی ناممکن ہو جاتی۔

اہم نکات

۱۔ رات کے سکون و سکوت کو صبح نور، صبح قیام، صبح نشاط کے ساتھ شگافتہ کرنے سے انسان کی زندگی فعال اور پرنم ہو جاتی ہے۔


آیات 96 - 97