وَ اِذَا جَآءُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ قَدۡ دَّخَلُوۡا بِالۡکُفۡرِ وَ ہُمۡ قَدۡ خَرَجُوۡا بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡتُمُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے تھے حالانکہ وہ کفر لے کر آئے تھے اور کفر ہی کو لے کر چلے گئے اور جو کچھ یہ (دلوں میں) چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔

61۔ عام طور پر ایسا ہوتا تھا کہ لوگ بد نیتی کے ساتھ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حلقہ درس میں بیٹھ جاتے تھے مگر حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام اور اخلاق کو دیکھ کر وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے تھے، مگر اہل کتاب منافقین اس قدر بدطینت ہوتے کہ کفر کے ساتھ آتے اور کفر کے ساتھ ہی واپس جاتے۔

وَ تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔اور ان میں سے اکثر کو آپ گناہ، زیادتی اور حرام کھانے کے لیے دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، کتنا برا کام ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ ان کے علماء اور فقہاء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ ان کا یہ عمل کتنا برا ہے؟

62 ۔ 63۔ اہل کتاب کے قول و فعل میں فسوق و فجور کی نشاندہی ہے کہ وہ قولاً اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر کرتے ہیں اور عملاً رشوت اور سود خوری جیسے برے کام کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کے علماء و فقہاء پر سکوت طاری ہے اور اپنے عوام کو غلیظ گناہوں کے ارتکاب کرتے دیکھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یعنی جب عوام فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور علماء سکوت اختیار کریں تو یہ یہود و نصاریٰ کی خصلتیں ہیں۔

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ ؕ غُلَّتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ لُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا ۘ بَلۡ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ ۙ یُنۡفِقُ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ؕ وَ اَلۡقَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَہَا اللّٰہُ ۙ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور یہود کہتے ہیں: اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، خود ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر لعنت ہو اس (گستاخانہ) بات پر بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی اور ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، یہ جب جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔

64۔ یہود مسئلہ قضا و قدر اور نسخ احکام میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے فیصلے ہرگز نہیں بدلتے آغاز خلقت میں جو کچھ فیصلہ ہوا ہے خود اللہ اس کا کاربند ہے اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی اللہ بے بس ہے جب کہ قرآن کا مؤقف یہ ہے: يَمْحُوا اللہُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ۝۰ۚۖ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ (رعد: 39) اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ اس کے پاس اصل کتاب ہے۔

اس آیت میں یہ نکات قابل غور ہیں: ٭یہود کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ مجبور ہے۔ کَیۡفَ یَشَآءُ تعبیر سے ظاہر ہے کہ اللہ جس طرح حکم تشریعی میں فیصلے بدلتا ہے، جسے نسخ کہتے ہیں، اسی طرح حکم تکوینی (کائناتی نظام) میں بھی فیصلے بدلتا ہے جسے بداء کہتے ہیں وَ لُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا کی رو سے اللہ کو تشریع و تکوین میں بے بس کہنے والے ملعون ہیں۔ واضح رہے اللہ کے فیصلے سابقہ فیصلوں میں نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ احکام میں حالات اور رزق و عطا میں استحقاق اور اہلیت کے وجود میں آنے یا فقدان کی وجہ سے بدلتے ہیں۔ اس کی تفصیل مقدمہ میں مسئلہ نسخ و بدا میں ملاحظہ فرمائیں۔

وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا : یہود چو نکہ اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم خیال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں صرف یہود ہی کو بالادستی کا حق حاصل ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو قیادت سنبھالتے دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو جاتے اور ان کی سرکشی اور کفر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی حسد و نفاق کی وجہ سے وہ جنگ کرنے پر اتر آتے ہیں۔

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَکَفَّرۡنَا عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاَدۡخَلۡنٰہُمۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ معاف کر دیتے اور انہیں نعمتوں والی جنتوں میں داخل کر دیتے ۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ؕ مِنۡہُمۡ اُمَّۃٌ مُّقۡتَصِدَۃٌ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ سَآءَ مَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۶۶﴾

۶۶۔ اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے، ان میں سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے۔

66۔ ادیان سماویہ کا تعلق صرف عبادت و آخرت سے نہیں بلکہ یہ ادیان انسان کے لیے دستور حیات بھی ہیں، جس پر عمل کرنے سے نعمتوں میں بھی فراوانی ہو جاتی ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

67۔ یہ سورہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں نازل ہوا۔ فتح مکہ کے بعد تبلیغ رسالت میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہ گیا تھا جو وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ”اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا“ کا تحفظ دینا پڑتا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ میں کفر سے مراد اس آیت کے مندرجات سے انکار ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ آیہ حج میں بھی یہی فرمایا: وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ۔

٭ یہ آیت 18 ذی الحجہ، حجۃ الوداع 10ھ کو بمقام غدیر خم نازل ہوئی، جہاں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک لاکھ حاجیوں کے مجمعے میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طرق سے، ابن جریر نے ستر طرق سے، علامہ جزری المقری نے اسّی طرق سے، ابن عقدہ نے ایک سو پانچ، سجستانی نے ایک سو بیس اور علامہ جعابی نے ایک سو پچیس طرق سے روایت کیا ہے۔ (الغدیر) ہمارے معاصر علامہ امینی نے الغدیر جلد اول میں ایک سو دس طرق سے یہ روایت ثابت کی ہے۔ درج ذیل اصحاب روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی ہے: 1۔ زید بن ارقم 2۔ ابوسعید خدری 3۔ عبداللہ بن مسعود 4۔ عبداللہ بن عباس 5۔ جابر بن عبد اللہ انصاری 6۔ ابوہریرہ 7۔ براء بن عازب۔ (ملاحظہ ہو الدر المنثور 2: 528 ط بیروت، الواحدی اسباب النزول ص 105 فتح القدیر 3 : 57، تفسیر روح المعانی 2: 348)

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ۚ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ (اے رسول) کہدیجئے: اے اہل کتاب! جب تک تم توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، کو قائم نہ کرو تم کسی قابل اعتنا مذہب پر نہیں ہو اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی مگر آپ ان کافروں کے حال پر افسوس نہ کریں۔

68۔ اہل کتاب اگر حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی امت ہونے پر ناز کرتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے، وہ جن رسولوں کی امت ہونے کے مدعی ہیں، اگر وہ اس مذہب کی کتابوں اور دیگر تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور جو نظام حیات ان کو دیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرتے تو پھر ان کا مذہب قابل اعتنا نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی آسمانی کتابوں اور دیگر تعلیمات کو کماحقہ قبول کریں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ سلسلہ نبوت اب نسل اسماعیل میں ہے اور محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برحق رسول ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل انجام دیتے ہیں وہ خواہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی ہوں یا عیسائی انہیں (روز قیامت) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔

لَقَدۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ رُسُلًا ؕ کُلَّمَا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُہُمۡ ۙ فَرِیۡقًا کَذَّبُوۡا وَ فَرِیۡقًا یَّقۡتُلُوۡنَ﴿٭۷۰﴾

۷۰۔بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے لیکن جب بھی کوئی رسول ان کی طرف ان کی خواہشات کے خلاف کچھ لے کر آیا تو انہوں نے بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کر دیا۔