وَ حَسِبُوۡۤا اَلَّا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ فَعَمُوۡا وَ صَمُّوۡا ثُمَّ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ثُمَّ عَمُوۡا وَ صَمُّوۡا کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کوئی فتنہ نہیں ہو گا اس لیے وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں اکثر اندھے اور بہرے ہو گئے اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔

71۔ یہود چونکہ اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس جرم کا بھی ارتکاب کریں گے اس کا مواخذہ نہ ہو گا اس لیے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انبیائے کرام کی تکذیب کرنے اور قتل کرنے سے کوئی خرابی کیا لازم آئے گی، اللہ نے بنی اسرائیل کو عذاب میں ڈالنا نہیں۔ لیکن اللہ نے اس کے باوجود ان پر اپنی رحمتیں جاری رکھیں اور ان پر یہ غلط فہمی واضح فرمائی پھر بھی سب نہ سہی اکثر لوگ گمراہ ہو گئے۔

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ؕ وَ قَالَ الۡمَسِیۡحُ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ وَ مَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ﴿۷۲﴾

۷۲۔وہ لوگ یقینا کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: مسیح بن مریم ہی خدا ہیں جبکہ خود مسیح کہا کرتے تھے: اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی پرستش کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، بے شک جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا، بتحقیق اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔

72۔ موجودہ تحریف شدہ انجیل میں بھی قرآن مجید کے اس بیان کی شہادت موجود ہے۔ چنانچہ انجیل یوحنا 7 : 3 میں آیا ہے: ابدی زندگی یہ ہے کہ تجھے پہچان لیں کہ تو ہی واحد خدا ہے اور یسوع مسیح علیہ السلام کو آپ نے رسول بنا کر بھیجا۔

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہُوۡا عَمَّا یَقُوۡلُوۡنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۳﴾

۷۳۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: اللہ تین میں کا تیسرا ہے جبکہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہیں آتے تو ان میں سے کفر کرنے والوں پر دردناک عذاب ضرور واقع ہو گا۔

73۔ مسیحیوں کا عقیدﮤ تثلیث جن مراحل سے گزرا ہے اس پر ایک طائرانہ نظر: سب سے پہلے یہ اختلاف وجود میں آیا کہ مسیح علیہ السلام اللہ ہیں یا رسول؟ یہ نظریہ پہلے سے موجود تھا کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ قائم ہوا کہ انہیں اللہ کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ تیسرا نظریہ یہ پیدا ہوا کہ مسیح علیہ السلام چونکہ بن باپ پیدا ہوئے اس لیے وہ اللہ کا بیٹا ہیں اور مخلوق بھی۔ چوتھا نظریہ یہ وجود میں آیا کہ مسیح علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہیں مخلوق نہیں۔ 325 عیسوی میں ان اختلافات کے تصفیے کے لیے روم میں ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں 48 ہزار علماء اور ماہرین نے شرکت کی۔ شہنشاہ قسطنطین نے، جو حال ہی میں مسیحی بن گیا تھا، یہ نظریہ اپنا لیا کہ مسیح علیہ السلام ہی خدا ہیں۔ چنانچہ باقی مذاہب خصوصاً نظریۂ توحید پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد روح القدس کے بارے میں بھی اختلاف ہوا۔ کچھ نے اسے خدا کا درجہ دیا اور کچھ منکر ہو گئے۔ 381 ء میں قسطنطنیہ میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں یہ فیصلہ ہوا: روح القدس روح اللہ ہے، روح اللہ، اللہ کی حیات ہے۔ اگر ہم نے روح اللہ کو مخلوق کہ دیا تو اللہ کی حیات مخلوق قرار پاتی ہے اور اللہ حی (زندہ) نہیں رہتا اور اگر ہم نے اللہ کو حی (زندہ) نہیں سمجھا تو ہم کافر ٹھہریں گے۔ چنانچہ اس اجتماع میں روح القدس بھی خدا کے درجے پر فائز ہو گیا۔ یوں باپ، بیٹے اور روح القدس کی تثلیث کو آخری شکل دے دی گئی۔ (محمد ابو زہرہ کی کتاب محاضرات فی النصرانیہ سے تلخیص)

اَفَلَا یَتُوۡبُوۡنَ اِلَی اللّٰہِ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۷۴﴾

۷۴۔ آخر یہ لوگ اللہ کے آگے توبہ کیوں نہیں کرتے اور مغفرت کیوں نہیں مانگتے؟ اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ انۡظُرۡ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ (راستباز خاتون) تھیں، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ لوگ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔

75۔ وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ : ان کی والدہ راستباز خاتون تھیں۔ وہ اس بات میں راستباز تھیں کہ مسیح علیہ السلام کو انہوں نے جنا ہے اور جو ماں سے جنا جاتا ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ ۔ مریم اور عیسیٰ علیہما السلام دونوں کھانا کھاتے تھے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا جسم تحلیل ہوتا ہے اور تحلیل شدہ اجزاء کے تدارک کے لیے جسم طعام کا محتاج ہے، جس کی حیات طعام کی محتاج ہو وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے۔

قُلۡ اَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَکُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا ؕ وَ اللّٰہُ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۷۶﴾

۷۶۔ کہدیجئے : کیا تم اللہ کے سوا ایسی چیز کی پرستش کرتے ہو جو تمہارے نقصان اور نفع پر کوئی اختیار نہیں رکھتی؟ اور اللہ ہی خوب سننے ، جاننے والا ہے۔

76۔ انسان کسی ہستی کی عبادت اس لیے کرتا ہے کہ وہ کائنات کی خالق اور مالک ہے۔ اس طرح وہ ہر خیر و شر اور نفع و نقصان کی بھی مالک ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز کسی بھی خیر و شر کی مالک نہ ہو، وہ خود کسی اور کی مملوک ہو تو وہ خدا کیسے بن سکتی ہے؟ ثانیاً نقصان اور نفع کا ذکر اس لیے کیا کہ اگرچہ عبادت کا معیار اس کا اہل ہونا اور کمال کا مالک ہونا ہے۔ لیکن اکثر لوگ دفع ضرر کی خاطر اور خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں اور نفع کی خاطر عبادت کرنا بھی انسانی سرشت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیہ شریفہ میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں کی تم پرستش کرتے ہو وہ دفع ضرر پر قادر ہیں نہ کسی نفع کے حصول پر۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوۡۤا اَہۡوَآءَ قَوۡمٍ قَدۡ ضَلُّوۡا مِنۡ قَبۡلُ وَ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا وَّ ضَلُّوۡا عَنۡ سَوَآءِ السَّبِیۡلِ﴿٪۷۷﴾

۷۷۔ کہدیجئے: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا ہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہی میں ڈال چکے ہیں اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔

77۔ سابقہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ مسیحیوں نے اپنے دین میں غلو اور مبالغہ کے کتنے مراحل طے کیے۔ اس آیت میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ ہے، وہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس میں غلو اور مبالغہ کا اصل سرچشمہ کہاں ہے؟ قرآن فرماتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی پیروی سے آیا ہے جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا تھے۔

مسیحی تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے والا بخوبی جانتا ہے کہ ان کے دین میں خرافات دو گروہوں کی طرف سے داخل ہوئے ہیں۔ ایک یہود اور دوسرا یونان کے بت پرست۔ اس مطلب پر گواہ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں مسیحی عالم ریورنید چارلس اینڈرسن سکاٹ) کا مقالہ ہے جس میں اعتراف کرتے ہیں کہ باپ بیٹا اور روح القدس کی اصطلاحیں یہودی ذرائع کی بہم پہنچائی ہوئی ہیں۔

لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ، داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی، کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔

78۔ اس لعنت کا ذکر عہد عتیق اور عہد جدید میں موجود ہے کیونکہ بنو اسرائیل نے حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں قانون سبت کو توڑا پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی تکذیب کی۔

کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ جن برے کاموں کے وہ مرتکب ہوتے تھے ان سے وہ باز نہیں آتے تھے، ان کا یہ عمل کتنا برا ہے۔

تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یَتَوَلَّوۡنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ لَبِئۡسَ مَا قَدَّمَتۡ لَہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ اَنۡ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ فِی الۡعَذَابِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔آپ ان میں سے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں، انہوں نے جو کچھ اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان پر ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔