آیت 68
 

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ۚ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ (اے رسول) کہدیجئے: اے اہل کتاب! جب تک تم توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، کو قائم نہ کرو تم کسی قابل اعتنا مذہب پر نہیں ہو اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی مگر آپ ان کافروں کے حال پر افسوس نہ کریں۔

تفسیر آیات

۱۔ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ: اہل کتاب اگر حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی امت ہونے پر ناز کرتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ وہ جن رسولوں کی امت ہونے کے مدعی ہیں اگر وہ اس مذہب کی کتابوں اور دیگر تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور جو نظام حیات ان کو دیا گیا ہے، اس کو قائم نہیں کرتے تو پھر ان کا مذہب قابل اعتنا نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی آسمانی کتابوں اور دیگر تعلیمات کو کماحقہ قبول کریں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ سلسلہ نبوت اب نسل اسماعیل میں ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برحق رسول ہیں۔

۲۔ وَ لَیَزِیۡدَنَّ : یہ قرآن جہاں اس پر ایمان لانے والوں کے لیے پند و ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ وہاں اس کے منکرین اور حاسدین کی سرکشی اور کفر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ ہر حجت اور ہدایت کا یہی نتیجہ سامنے آتا ہے۔ قبول کرنے والوں کے لیے رحمت، رد کرنے والوں کے عذاب ونکبت جیسے:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا﴿﴾ (۱۷ بنی اسرائیل: ۸۲)

اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے لیکن ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے۔

اہم نکات

۱۔تعلیمات دینی پر ایمان کے بعد ان کا قائم رکھنا ہی مذہب ہے۔

۲۔قرآنی نظام کے قیام کے بغیر ہم مذہب اسلام کے پیروکار نہیں بن سکتے۔


آیت 68