آیات 62 - 63
 

وَ تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔اور ان میں سے اکثر کو آپ گناہ، زیادتی اور حرام کھانے کے لیے دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، کتنا برا کام ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ ان کے علماء اور فقہاء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ ان کا یہ عمل کتنا برا ہے؟

تشریح کلمات

الرَّبّٰنِیُّوۡنَ: بنابر قولے نصاریٰ کے علماء کو ربانیون اور احبار یہود کے علماء کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ: اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کو آپ تین حالتوں سے خالی نہیں دیکھتے:

الف: یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡاِثۡمِ: وہ گناہ کی طرف لپکتے ہیں۔ اس گناہ میں سر فہرست کفر، اسلام کا مذاق اڑانا ہے۔

ب: وَ الۡعُدۡوَانِ: زیادتی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے کی طرف بھی یہ لوگ بڑی سرعت سے جاتے ہیں۔

ج: وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ : رشوت خوری میں بھی یہ لوگ پیش پیش ہیں یا مطلق حرام خوری میں یہ لوگ آگے ہیں۔

۲۔ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ: مذکورہ اعمال وہ ہیں جن کے برے ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

۳۔ لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ: یہود و نصاریٰ کے علماء اپنی قوم کے لوگوں کو گناہ کی باتیں کرنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ سے مراد بعض کے نزدیک کتاب خدا کی تحریف ہے اور بعض کے نزدیک خلاف حق باتیں ہیں۔ یہی زیادہ مناسب ہے۔

۴۔ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ: یعنی ان کے علماء کا کردار کس قدر برا ہے کہ ان کے سامنے لوگ گناہ اور جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور یہ لوگ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ معاشرے میں گناہ عام ہوں اور علماء پر سکوت طاری ہو، یہ یہودی خصلت ہے۔ اس میں امر بمعروف و نہی از منکر کے واجب ہونے کا ثبوت ہے۔

اہم نکات

۱۔ عوام فسق و فجور میں مبتلا ہوں، علماء سکوت اختیار کریں ، یہ ہیں یہودی خصلتیں۔


آیات 62 - 63