آیت 66
 

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ؕ مِنۡہُمۡ اُمَّۃٌ مُّقۡتَصِدَۃٌ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ سَآءَ مَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۶۶﴾

۶۶۔ اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے، ان میں سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ: اللہ کی طرف سے عطا کردہ تعلیمات اور ادیان سماویہ کا مطلب صرف عبادت اور آخرت و قیامت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ ان ادیان نے انسانوں کے لیے ایک جامع نظام حیات، ایک کامل دستور دیا ہے۔ یہ کامل دستور عدل و انصاف کا دستور ہے۔ عدل کا نظام قائم ہونے کی صورت میں نعمتوں کی فراوانی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا:

بِالْعَدْلِ تَتَضَاعَفُ الْبَرَکَاتُ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۳۲۰)

عدل سے برکتیں دوبالا ہو جاتی ہیں۔

الٰہی نظام، عدل و انصاف کا نظام ہے، جس پر صحیح طریقے سے عمل کیا جاتا تو امن و آشتی کی پرسکون فضا میں آبی وسائل سے استفادے، زمین کی آبادی، پیداوار میں وسعت، رزق میں فراوانی اور تقسیم دولت میں عدل و انصاف سے دنیاوی زندگی بھی نعمتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہو سکتی ہے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا: ولو انہم اٰمنوا بلکہ فرمایا: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صرف مان لینے سے نہیں بلکہ ان تعلیمات پر عمل کرنے اور انہیں قائم رکھنے سے اس نظام کی برکتوں سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔

۲۔ مِنۡہُمۡ اُمَّۃٌ مُّقۡتَصِدَۃٌ: یہودیوںمیں بھی ایک گروہ ایسا تھا جو حق پر قائم رہا۔ روایت کے مطابق یہ گروہ وہی ہے جو ایمان لے آیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔

اہم نکات

۱۔الٰہی نظام، دنیاوی زندگی کے لیے عدل و انصاف کا نظام فراہم کرتا ہے۔

۲۔صرف مان لینے سے نہیں بلکہ عمل سے یہ نظام میسر آ سکتا ہے اور نافذ ہو سکتا ہے۔

۳۔دنیا و آخرت، دونوں کی سعادتیں ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ دونوں سے محرومی بھی ہو سکتی ہے۔

۴۔ آسمانی تعلیمات میں نعمتوں کی فراوانی کے خلاف کوئی تصور نہیں ہے۔


آیت 66