گناہ پر سکوت، یہودی خصلت


وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ ؕ غُلَّتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ لُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا ۘ بَلۡ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ ۙ یُنۡفِقُ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ؕ وَ اَلۡقَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَہَا اللّٰہُ ۙ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور یہود کہتے ہیں: اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، خود ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر لعنت ہو اس (گستاخانہ) بات پر بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی اور ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، یہ جب جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔

64۔ یہود مسئلہ قضا و قدر اور نسخ احکام میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے فیصلے ہرگز نہیں بدلتے آغاز خلقت میں جو کچھ فیصلہ ہوا ہے خود اللہ اس کا کاربند ہے اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی اللہ بے بس ہے جب کہ قرآن کا مؤقف یہ ہے: يَمْحُوا اللہُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ۝۰ۚۖ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ (رعد: 39) اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ اس کے پاس اصل کتاب ہے۔

اس آیت میں یہ نکات قابل غور ہیں: ٭یہود کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ مجبور ہے۔ کَیۡفَ یَشَآءُ تعبیر سے ظاہر ہے کہ اللہ جس طرح حکم تشریعی میں فیصلے بدلتا ہے، جسے نسخ کہتے ہیں، اسی طرح حکم تکوینی (کائناتی نظام) میں بھی فیصلے بدلتا ہے جسے بداء کہتے ہیں وَ لُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا کی رو سے اللہ کو تشریع و تکوین میں بے بس کہنے والے ملعون ہیں۔ واضح رہے اللہ کے فیصلے سابقہ فیصلوں میں نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ احکام میں حالات اور رزق و عطا میں استحقاق اور اہلیت کے وجود میں آنے یا فقدان کی وجہ سے بدلتے ہیں۔ اس کی تفصیل مقدمہ میں مسئلہ نسخ و بدا میں ملاحظہ فرمائیں۔

وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا : یہود چو نکہ اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم خیال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں صرف یہود ہی کو بالادستی کا حق حاصل ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو قیادت سنبھالتے دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو جاتے اور ان کی سرکشی اور کفر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی حسد و نفاق کی وجہ سے وہ جنگ کرنے پر اتر آتے ہیں۔