مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَ لَہٗۤ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۚ۱۱﴾

۱۱۔ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اس کے لیے اسے کئی گنا کر دے؟ اور اس کے لیے پسندیدہ اجر ہے۔

11۔ مالک حقیقی اس سے قرض مانگ رہا ہے جس کے پاس اس کی امانت ہے اور اس کا فضل وکرم، دیکھو کہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا اور ساتھ ہی اجر کریم بھی عنایت فرمائے گا۔

بعض اہل تحقیق لکھتے ہیں: آیات و احادیث کی روشنی میں انفاق میں دس اوصاف ہوں تو یہ قرض حسن بنتا ہے۔ i مال حلال ہو۔ii عمدہ مال ہو، ردی نہ ہو۔ iii مال کی ضرورت ہو، زندگی کے آخری لمحات میں نہ ہو۔iv مستحق ترین کو دے دے۔ v اس انفاق کو راز میں رکھے۔vi دینے کے بعد نہ جتلائے۔ vii برائے خدا ہو، ریاکاری نہ ہو۔ viiiمال زیادہ دیا جا رہا ہو تو بھی اس کو تھوڑا سمجھے۔ ix اپنا پسندیدہ مال ہو۔ x اس مال کی خود کو بھی ضرورت ہو۔

یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (ان سے کہا جائے گا) آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہو گا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

12۔ چونکہ مومنین کے نامہ اعمال سامنے یا دائیں طرف سے وصول ہوں گے، اس لیے نور بھی اسی جانب ہو گا اور ہر فرد کو اس کے اعمال کے مطابق نور ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز کافر اور منافق اسی تاریکی میں مبتلا رہیں گے، جس میں وہ دنیا میں مبتلا رہ چکے ہیں۔

یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مؤمنین سے کہیں گے: ہمارا انتظار کریں تاکہ ہم تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں، (مگر) ان سے کہا جائے گا: اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار بنا دی جائے گی، جس کا ایک دروازہ ہو گا جس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور اس کی بیرونی جانب عذاب ہو گا۔

13۔ منافقین، مومنین سے مدد طلب کریں گے تو ان کو وہ باتیں یاد دلائی جائیں گی جن کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ وہ ہیں: فتنہ پروری، موقع پرستی، شکوک پیدا کرنا اور آرزوؤں کے دھوکے میں آنا۔

یُنَادُوۡنَہُمۡ اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ لٰکِنَّکُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَ ارۡتَبۡتُمۡ وَ غَرَّتۡکُمُ الۡاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ غَرَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ﴿۱۴﴾

۱۴۔ وہ (مؤمنوں کو) پکار کر کہیں گے: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ کہیں گے: تھے تو سہی! لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم (ہمارے لیے حوادث کے) منتظر رہے اور شک کرتے رہے اور تمہیں آرزوؤں نے دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا اور دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دیتا رہا۔

فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ پس آج تم سے نہ کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان سے جنہوں نے کفر اختیار کیا، تمہارا ٹھکانا آتش ہے، وہی تمہارے لیے سزاوار ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

15۔ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ : اس آیت میں لفظ مولا یعنی اولی استعمال ہوا ہے۔ مفسرین نے تصریح کی ہے کہ اس آیت میں مَوۡلٰىکُمۡ سے مراد اولی بکم ہے۔ فخر الدین رازی کے جواب میں یہ آیت اور دیگر شواہد پیش کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا: مَفْعَل بمعنی اَفْعَل نہیں آتا۔ یعنی مولا بمعنی اولی نہیں آتا۔

اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ کیا مومنین کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے؟ اور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔

16۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اظہار ایمان کرنے والوں میں سے کچھ لوگوں سے خطاب ہے کہ تمہارے دل ابھی حقیقی ایمان سے سرشار نہیں ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں پس و پیش کرتے ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں مولانا مودودی نے درست تشبیہ دی ہے اور کہا ہے: یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آرہے ہیں، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ ابھی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے سامنے موجود ہیں، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے، تمہیں ایمان لائے کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیت سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)

صحیح مسلم کتاب التفسیر میں آیا ہے کہ ابن مسعود کہا کرتے تھے: ما کان بین اسلامنا و بین ان عاتبنا اللہ بہذہ الایۃ الا اربع سنین ۔ ہمارے اسلام قبول کرنے اور اس آیت کے ذریعے ہمارے عتاب کے درمیان صرف چار سال کا فاصلہ تھا۔ کشاف 4: 477 میں آیا ہے: اہل یمامہ کے کچھ لوگوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی تو وہ بہت روئے تو حضرت ابوبکر نے فرمایا شروع میں ہم بھی ایسے تھے۔

ابن مسعود کی روایت کے مطابق اس آیت کو مدنی ماننا پڑے گا، ورنہ صحیح مسلم کی روایت کی صحت پر بحث ہونی چاہیے، چونکہ صحاح میں یہ روایت صرف صحیح مسلم میں ہے۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ جان رکھو! اللہ ہی زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے، ہم نے تمہارے لیے نشانیوں کو یقینا واضح طور پر بیان کیا ہے، شاید تم عقل سے کام لو۔

اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ یقینا صدقہ دینے والے مردوں اور صدقہ دینے والی عورتوں نیز ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے کئی گنا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک کامل سچے اور گواہ ہیں، ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں۔

19۔ اس کے بعد سچے دل سے ایمان لانے والوں کا ذکر آیا ہے کہ ان کو صدیقین اور شہداء کے ساتھ جگہ ملے گی۔ چنانچہ اسی مضمون کی ایک آیت سورہ نساء آیت 69 میں بھی آئی ہے۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے جب کہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے۔

20۔ دنیا اگر صرف ایک دھوکہ نہ ہوتی اور انسان صرف اسی زندگی کے لیے بنایا گیا ہوتا تو مال و متاع دنیا کی فراوانی سے سکون و اطمینان میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ اس دنیا کے مال و متاع میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے، اسی حساب سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سکون چھن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان دنیا کے لیے خلق نہیں ہوا ہے۔

دنیاوی زندگی کو ذریعہ آخرت بنایا جائے تو اس کی وہ صفات نہیں ہوں گی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں، بلکہ حضرت علی علیہ السلام سے اس دنیا کے مثبت پہلو کے بارے میں روایت ہے: اِنَّ الدُّنْیَا۔۔۔ دَارُ غِنًی لِمَن تَزَوَّدَ مِنْھَا وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِھَا مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللہِ وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللہِ وَ مَھْبِطْ وَحْیِ اللہِ وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائَ اللہِ۔۔۔ (نہج البلاغۃ نصیحت 121، ص 494) جو یہاں سے زاد راہ لے جانا چاہتا ہے اس کے لیے یہ دنیا دولت کی جگہ ہے، جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ دنیا نصیحت کی جگہ ہے، یہ دنیا اللہ کے دوستوں کی عبادت گاہ، فرشتوں کی سجدہ گاہ، وحی کی بارگاہ اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ (آخرت کا منافع کمانے کی جگہ) ہے۔