لفظ مولا کی تشریح


فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ پس آج تم سے نہ کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان سے جنہوں نے کفر اختیار کیا، تمہارا ٹھکانا آتش ہے، وہی تمہارے لیے سزاوار ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

15۔ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ : اس آیت میں لفظ مولا یعنی اولی استعمال ہوا ہے۔ مفسرین نے تصریح کی ہے کہ اس آیت میں مَوۡلٰىکُمۡ سے مراد اولی بکم ہے۔ فخر الدین رازی کے جواب میں یہ آیت اور دیگر شواہد پیش کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا: مَفْعَل بمعنی اَفْعَل نہیں آتا۔ یعنی مولا بمعنی اولی نہیں آتا۔