آیت 15
 

فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ پس آج تم سے نہ کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان سے جنہوں نے کفر اختیار کیا، تمہارا ٹھکانا آتش ہے، وہی تمہارے لیے سزاوار ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ: مومنین کا منافقین سے یہ خطاب ہو گا: آج تمہارے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے بلکہ کوئی فدیہ بھی نہ تم سے قبول کیا جائے گا، نہ کافروں سے۔ کافر اور منافق دونوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

۲۔ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ: آج آتش جہنم ہی تمہارے لیے اولیٰ و سزاوار تر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ مولا، اولٰی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

میں نے اپنے طلب علمی کے زمانے سنہ ۱۳۸۸ ہجری میں نجف اشرف میں ایک کتاب بنام النہج السوی فی معنی المولی و الولی تالیف کی جس میں حدیث غدیر من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں میں لفظ مولیٰ کے معنی پر بحث کی ہے اور مولا بمعنی اولیٰ ہونے پر اس آیت سے استدلال کیا ہے اور اہل سنت کے ائمہ لغت و تفسیر کے ۵۵ مصادر کا ذکر ہے جن میں تصریح کی ہے کہ اس آیت میں لفظ مولا ، اولیٰ کے معنی میں ہے۔ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ یعنی ھی اولی بکم۔


آیت 15