آیت 19
 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک کامل سچے اور گواہ ہیں، ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں۔

تفسیر آیات

جو لوگ اللہ اور تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ایمان کا حق ادا کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک صدیقین اور گواہ ہیں۔ سورہ نساء آیت ۶۹ میں فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن یہاں فرمایا: یہ خود صدیقین اور شہداء یعنی گواہ ہوں گے۔ گواہ کی منزلت پر فائز ہونا بہت بڑا درجہ ہے۔ لہٰذا یہاں ایمان سے مراد ایمان کا ایک خاص درجہ ہو سکتا ہے۔ جن کو اجر کے ساتھ نور بھی عنایت ہو گا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ وہ دوسروں کے اعمال کے لیے شہداء ،گواہ ہوں گے۔

واضح رہے قرآنی اصطلاح میں راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو شہید نہیں کہتے۔ یہ بعد کی اصطلاح ہے۔ شہید سے مراد گواہ ہیں۔

لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ: آیت کی تاویل سمجھنے کے لیے اس روایت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو شواہد التنزیل ۲: ۲۵۴، امالی شیخ طوسی صفحہ ۳۷۸، غایۃ المرام کے باب ۱۶۳ میں ابن مغازلی کے مناقب میں بیان کی گئی ہے اس میں اس آیت کی تفسیر موجود ہے : سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:

اذا کان یوم القیامۃ عقد لواء من نور ابیض و ینادی مناد لیقم سید المومنین و معہ الذین آمنوا بعد فقد بعث محمد (ص) فیقوم علی بن ابی طالب فیعطی اللّٰہ اللواء من النور الابیض بیدہ تحتہ جمیع السابقین الاولین من المھاجرین والانصار لا یخالطہم غیرہم۔۔۔

جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک سفید نور کا علم ہو گا۔ ندا دینے والا ندا دے گا مومنوں کا سردار اٹھ جائے اور ان کے ساتھ بعثت کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والے بھی اٹھیں تو علی بن ابی طالب اٹھیں گے پھر سفید نور کا علم ان کے ہاتھ میں دیا جائے گا جس کے نیچے مہاجر اور انصار میں سے سابقین اولین ہوں گے۔ ان کے ساتھ دوسرے لوگ مخلوط نہیں ہو سکیں گے۔

اس روایت کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:

الصدیقون ثلاثۃ: حبیب النجار مؤمن آل یاسین، حزبیل مؤمن آل فرعون، وعلی بن ابی طالب وھو افضلہم۔

صدیقین تین ہیں: حبیب نجار مومن آل یاسین، حزبیل مومن آل فرعون اورعلی ابن ابی طالبؑ۔ علی ؑ ان دونوں سے افضل ہیں۔

عبد الرحمن بن ابی لیلی نے اپنے والد سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تاریخ دمشق حالات امیرالمومنین میں، شواہد التنزیل ذیل آیت، دار قطنی نے زیر عنوان حزبیل اپنی کتاب المؤتلف المختلف میں، سیوطی نے الجامع الصغیر ۲: ۵۰ میں اور ابو نعیم نے المعرفۃ میں یہ روایت بیان کی ہے۔


آیت 19