اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ کیا مومنین کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے؟ اور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔

16۔ رسول اللہ ﷺ پر اظہار ایمان کرنے والوں میں سے کچھ لوگوں سے خطاب ہے کہ تمہارے دل ابھی حقیقی ایمان سے سرشار نہیں ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں پس و پیش کرتے ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں مولانا مودودی نے درست تشبیہ دی ہے اور کہا ہے: یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آرہے ہیں، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ ابھی رسول ﷺ تمہارے سامنے موجود ہیں، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے، تمہیں ایمان لائے کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیت سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)

صحیح مسلم کتاب التفسیر میں آیا ہے کہ ابن مسعود کہا کرتے تھے: ما کان بین اسلامنا و بین ان عاتبنا اللہ بہذہ الایۃ الا اربع سنین ۔ ہمارے اسلام قبول کرنے اور اس آیت کے ذریعے ہمارے عتاب کے درمیان صرف چار سال کا فاصلہ تھا۔ کشاف 4: 477 میں آیا ہے: اہل یمامہ کے کچھ لوگوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی تو وہ بہت روئے تو حضرت ابوبکر نے فرمایا شروع میں ہم بھی ایسے تھے۔

ابن مسعود کی روایت کے مطابق اس آیت کو مدنی ماننا پڑے گا، ورنہ صحیح مسلم کی روایت کی صحت پر بحث ہونی چاہیے، چونکہ صحاح میں یہ روایت صرف صحیح مسلم میں ہے۔