آیت 20
 

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے جب کہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ: دنیوی زندگی مقصد: اگر دنیوی زندگی مقصد قرار دی جائے اور اخروی زندگی کے تقاضوں سے متصادم زندگی ہو تو یہ زندگی طبیعت (nature) کے ہاتھوں ایک کھلونے سے زیادہ قیمت نہیں رکھتی۔

اس آیت اور دیگر آیات و احادیث میں دنیا کی مذمت کا تعلق اس دنیا سے ہے جو آخرت کے ساتھ متصادم ہے چونکہ آخرت کی ابدی اور ختم نہ ہونے والی زندگی کے مقابلے میں چند روزہ دنیا کی کوئی اہمیت نہیں بنتی۔

شیخ بہائیؒ سے منقول ہے: پانچ خصلتیں انسان کی عمر کے مراحل سے مربوط ہیں: بچپنے میں کھیل میں مشغول ہوتا ہے۔ بلوغ کی عمر کو پہنچے تو لہویات میں مشغول ہوتا ہے۔ جوانی میں زیب و زینت کا دلدادہ ہوتا ہے۔ درمیانی عمر میں فخر و مباہات میں لگ جاتا ہے اور عمر رسیدہ ہونے پر مال و اولاد کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔

۲۔ کَمَثَلِ غَیۡثٍ: دنیا کی مثال اس بارش کی سی ہے جس نے کسان کو وقتی طور پر خوش کیا۔ اتنے میں خزاں آ جاتی ہے۔ کھیتی خشک ہو جاتی اور بھس بن جاتی ہے اور ختم۔

۳۔ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ: اور آخرت کا شدید عذاب ختم ہونے والا نہیں ہے۔

۴۔ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ: دنیاوی زندگی اگر صرف دھوکہ نہ ہوتی اور انسان کو اس دنیا کی زندگی کے لیے بنایا گیا ہوتا تو متاع دنیا کی فراوانی سے سکون و اطمینان میں اضافہ ہونا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے چونکہ مچھلی پانی میں زندگی بسر کرنے کے لیے خلق ہوئی ہے۔ جب کہ اس دنیا کے مال و دولت میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے اسی حساب سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سکون چھن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان دنیا کے مال دولت کے لیے خلق نہیں ہوا ہے۔ البتہ ضرورت سے زیادہ مال و دولت مراد ہے۔ صرف ضرورت کی حد تک مال سے انسان کو سکون ملتا ہے۔

دنیوی زندگی ذریعہ: اگر زندگی کو کسب آخرت کے لیے ذریعہ بنایا جائے تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں ہے بلکہ اس زندگی کو فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ اس دنیا کی ساٹھ ستر سال کی زندگی کے عوض آخرت کی ابدی زندگی سنور سکتی ہے تو اس زندگی کے ہر آن کے مقابلے میں آخرت کے اربوں سال کی زندگی بن جاتی ہے۔ اس طرح مومن کی دنیا اور ایمان کی زندگی کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا:

الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔ (بحار ۶۷: ۲۲۵)

دنیا آخرت کے لیے کھیتی ہے۔

تو آخرت کی جو بھی قیمت لگائی جائے کھیتی کو وہی قیمت مل جاتی ہے۔

اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا مولائے متقیان علی علیہ السلام نے:

اِنَّ الدُّنْیَا۔۔۔ دَارُ غِنًی لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْھَا وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِھَا مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللّٰہِ وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللہِ وَ مَھْبِطُ وَحْیِ اللہِ وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائِ اللہِ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ نصیحت ۱۳۱)

یہ دنیا۔۔۔ جو اس سے زاد راہ حاصل کر ے اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام ، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔


آیت 20