آیت 12
 

یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (ان سے کہا جائے گا) آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہو گا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ: قیامت یا اجر عظیم کے دن۔

۲۔ تَرَی: خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے کہ آپ اپنی امت کے شاہد اور شفیع ہونے کے اعتبار سے قیامت کے دن اپنی امت کے جنت جانے کا منظر دیکھ رہے ہوں گے۔

۳۔ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ: جب مومنین بڑی تیزی سے جنت کی طرف جا رہے ہوں گے تو ان کا نور بھی ان کے ساتھ ساتھ ہو گا۔ نور سے مراد ان کے اچھے اعمال ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

الصَّلَاۃُ عَلَیَّ وَ عَلَی آلِی نُورٌ عَلَی الصِّرَاطَ۔ (مستدرک الوسائل ۵: ۳۳۷)

مجھ پر اور میری آل پر درود پل صراط کے لیے روشنی ہو گی۔

۴۔ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ: اس روشنی کے ان کے آگے اور دائیں طرف دوڑنے سے مراد ان کے اچھے اعمال ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن ہر ایک کا نور اس کے اعمال کے مطابق ہو گا۔ چنانچہ مومنین کے نامہ اعمال سامنے یا دائیں طرف سے وصول کریں گے، نور بھی اسی جانب ہو گا۔ حدیث ہے:

اَنَّ الْوُضُوئَ عَلَی الْوُضُوئِ نُورٌ عَلَی نُورِ۔ (فقیہ۱: ۴۱)

وضو پر وضو نور علی نور ہے۔

۵۔ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ: فرشتے ان روشنی والوں یعنی اللہ کو قرض دینے والوں کو جنت کی بشارت دے رہے ہوں گے۔

۶۔ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ: اگر کوئی عظیم کامیابی ہے تو ابدی اور دائمی زندگی کے بارے میں یہ بشارت عظیم کامیابی ہے۔


آیت 12