فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۲۱﴾

۲۱۔ پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

21۔ اس زینت کو اور روایت کے مطابق اس چراغ ہدایت کو کیسے جھٹلاؤ گے۔

یَخۡرُجُ مِنۡہُمَا اللُّؤۡلُؤُ وَ الۡمَرۡجَانُ ﴿ۚ۲۲﴾

۲۲۔ ان دونوں سمندروں سے موتی اور مونگا نکلتے ہیں۔

22۔ بعض کہتے ہیں موتی اور مونگے صرف اسی جگہ پیدا ہوتے ہیں، جہاں میٹھا اور کھارا پانی آپس میں ملتے ہیں۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۲۳﴾

۲۳۔پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

وَ لَہُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشَئٰتُ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ اور سمندر میں چلنے والے پہاڑوں کی طرح بلند جہاز اسی کے ہیں۔

24۔ قدیم انسانی صنعت میں جہاز سازی اور جہاز رانی ہو یا آج کل کی جدید ٹیکنالوجی، خاص کر کمپیوٹر ٹیکنالوجی، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک لوگوں پر تعجب ہوتا ہے، مگر جس انسان نے کمپیوٹر بنایا ہے اس انسان کے خالق کی صناعیت پر تعجب نہیں ہوتا؟

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿٪۲۵﴾ ۞ؒ

۲۵۔پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

25۔ سمندری سفر میں موجود فوائد و منافع کو کیسے جھٹلاؤ گے۔

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾

۲۶۔ روئے زمین پر موجود ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔

وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾

۲۷۔ اور صرف آپ کے صاحب عزت و جلال رب کی ذات باقی رہنے والی ہے۔

27۔ روئے زمین کی موجودات سب فانی ہیں، سوائے وجہ رَب کے۔ وَجۡہُ یعنی ذات چونکہ کسی کی ذات کی پہچان وَجۡہُ چہرے سے ہوتی ہے تو ذات کو چہرہ کہنا محاورہ بن گیا۔ چنانچہ مکہ کے مساکین کہا کرتے تھے: این وجہ عربی کریم ینقذنی من الھوان کہاں ہے وہ عربی چہرہ جو مجھے ذلت سے بچائے۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۲۸﴾

۲۸۔پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

28۔ رَب کی بقا اور تمہارے اعادﮤ حیات کے مضمرات کو کیسے جھٹلاؤ گے۔

یَسۡـَٔلُہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ﴿ۚ۲۹﴾

۲۹۔ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی سے مانگتے ہیں، وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔

29۔ آسمان و زمین میں بس وہی بے نیاز ہے اور اس کے سوا کوئی بے نیاز نہیں ہے۔ باقی سب اس کے نیازمند ہیں۔ لہٰذا اس کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ وہ ہر وقت ایجاد، ابداع، عطا، شفا، عنایت اور فیاضی میں مصروف ہے۔ اس کائنات میں ایک پتہ بھی اس کے اذن کے بغیر نہیں گرتا: وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا ۔ (انعام : 59)

کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ: کُلَّ یَوۡمٍ ہر زمانے میں فِیۡ شَاۡنٍ ایجاد و ابداع میں ہے، کیونکہ اللہ کا ہر عمل ایجاد ہے، لا تکرار فی الوجود ۔ اس لیے ہم نے شَاۡنٍ کا ترجمہ کرشمہ سازی سے کیا ہے۔ ہر وقت ہر چیز اس کی بارگاہ سے مانگ سکتے ہو۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۳۰﴾

۳۰۔پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟