آیت 29
 

یَسۡـَٔلُہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ﴿ۚ۲۹﴾

۲۹۔ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی سے مانگتے ہیں، وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَسۡـَٔلُہٗ: کل کائنات نیاز مندی اور احتیاج سے عبارت اور مجسم سوال ہے۔ حتیٰ اپنے وجود و بقا میں بھی محتاج۔

آیت میں فرمایا: کل کائنات اللہ سے سوال کرتی ہے۔ کس چیز کا سوال کرتی ہے؟ اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے سوال کی عمومیت واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ سے سوال کیے بغیر حاصل کی جائے۔ لہٰذا ممکنات اپنے وجود و بقا کے بارے میں تمام چیزوں کا بزبان حال سوال کرتے ہیں۔

۲۔ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ: وہ (اللہ) ہر وقت، ہر زمانے میں فِیۡ شَاۡنٍ ایجاد و ابداع میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر عمل ایجاد ہے۔ لا تکرار فی الوجود۔ کُلَّ یَوۡمٍ میں یَوۡمٍ سے زمانہ مراد نہیں ہے۔ کُلَّ یَوۡمٍ تسلسل کے بیان کے لیے ہے۔ لا انقطاع فی الفیض۔ اللہ سے فیض ایک لمحے کے لیے بھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ اس طرح اللہ کی طرف سے تخلیق و ایجاد کا عمل جاری ہے:

یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر:۱)

وہ جیسے چاہتا ہے مخلوقات میں اضافہ فرماتا ہے۔

اور ہر حاجت مند کی حاجت روائی بھی جاری ہے۔ اسی لیے ہم نے شَاۡنٍ کا ترجمہ کرشمہ سازی سے کیا ہے۔ ہر وقت، ہر چیز اس کی بارگاہ سے انسان مانگ سکتا ہے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک خطبے میں فرمایا:

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَا یَمُوتُ وَ لَا تَنْقَضِی عَجَائِبُہُ لِاَنَّہُ کُلَّ یَوْمٍ فِی شَاْنٍ مِنْ اِحْدَاثِ بَدِیعٍ لَمْ یَکُنْ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۴۱ ۔باب جامع التوحید)

حمد ہے اس ذات کے لیے جسے فنا نہیں ہے اور اس کی ایجادات کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ وہ ہر روز ایک کرشمہ سازی میں ہے یعنی جو موجود نہیں ہے اس کی نئی ایجاد میں۔


آیت 29