فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ ۪ۙ وَّ النَّخۡلُ ذَاتُ الۡاَکۡمَامِ ﴿ۖ۱۱﴾

۱۱۔ اس میں میوے اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں۔

وَ الۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَ الرَّیۡحَانُ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ اور بھوسے والا اناج خوشبو والے پھول ہیں۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۱۳﴾

۱۳۔ پس (اے جن و انس !) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

13۔ ان نعمتوں میں سے کسی نعمت کو بھی تم نہیں جھٹلا سکتے۔

اٰلَآءِ نعمتوں کے معنی میں ہے اور ایک ترکیب میں استعمال ہوتا ہے، خواہ اسے تکرار کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اگر مختلف تراکیب میں اٰلَآءِ کا لفظ مختلف معانی کا فائدہ دیتا ہے تو ان آیات کو ان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کے خشک گارے سے بنایا۔

وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔ اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

16۔ کہ اس کائنات میں تم کو بہترین پیرائے میں خلق کیا ہے۔

رَبُّ الۡمَشۡرِقَیۡنِ وَ رَبُّ الۡمَغۡرِبَیۡنِ ﴿ۚ۱۷﴾

۱۷۔ وہ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا رب ہے۔

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۱۸﴾

۱۸۔ پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

18۔ اس شروق و غروب میں موجود مصلحتوں کو کیسے جھٹلاؤ گے۔

مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اسی نے دو سمندروں کو جاری کیا کہ آپس میں مل جائیں،

19۔ در منثور میں ابن عباس سے روایت ہے کہ مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ سے مراد علی و فاطمہ علیہما السلام ہیں، بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ سے حضرت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اللُّؤۡلُؤُ وَ الۡمَرۡجَانُ سے حضرات حسنین علیہما السلام مراد ہیں۔ یہی روایت انس بن مالک، سلمان فارسی، سعید بن جبیر اور سفیان ثوری نے بھی بیان کی ہے۔

بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔تاہم ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔

20۔ زندگی پر آب شیریں و نمکین کے اثرات کو کیسے جھٹلاؤ گے۔