یَّغۡشَی النَّاسَ ؕ ہٰذَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ عذاب دردناک ہو گا۔

رَبَّنَا اکۡشِفۡ عَنَّا الۡعَذَابَ اِنَّا مُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ (ـوہ فریاد کریں گے) ہمارے رب! ہم سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں۔

اَنّٰی لَہُمُ الذِّکۡرٰی وَ قَدۡ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ ان کے لیے نصیحت کہاں سودمند ہے جب کہ ان کے پاس واضح بیان کرنے والا رسول آیا تھا؟

ثُمَّ تَوَلَّوۡا عَنۡہُ وَ قَالُوۡا مُعَلَّمٌ مَّجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۱۴﴾

۱۴۔ پھر انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور کہا: یہ تو تربیت یافتہ دیوانہ ہے۔

14۔ حالانکہ دیوانے کی تربیت نہیں ہو سکتی۔ ان مشرکین کو اپنے عائد کردہ الزام کے مضمون کی بھی خبر نہیں کہ ہم کیا الزام لگا رہے ہیں۔ آج مستشرقین بھی یہی الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ قرآن کسی اور کا سکھایا پڑھایا ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ قرآن کے اعجازی پہلو کی یہ لوگ توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نابغہ تھے اور مشرکین کہتے تھے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پڑھایا سکھایا ہوا دیوانہ ہے۔ جبکہ دیوانے کو سکھایا پڑھایا نہیں جا سکتا۔ نابغہ ہیں تو دیگر نابغہ افراد بھی ایسا کلام پیش کر سکتے ہیں۔

اِنَّا کَاشِفُوا الۡعَذَابِ قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ عَآئِدُوۡنَ ﴿ۘ۱۵﴾

۱۵۔ ہم تھوڑا سا عذاب ہٹا دیتے ہیں، تم یقینا وہی کچھ کرو گے جو پہلے کیا کرتے تھے۔

یَوۡمَ نَبۡطِشُ الۡبَطۡشَۃَ الۡکُبۡرٰی ۚ اِنَّا مُنۡتَقِمُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ جس دن ہم بڑی کاری ضرب لگائیں گے ہم (اس دن) انتقام لینے والے ہیں۔

16۔ یہ انتقام قیامت کا ذکر نہیں، بلکہ قیامت سے پہلے یوم دخان (دھوئیں والے دن ) کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقوں اور کافروں کو قیامت سے پہلے بھی ایک ضرب اور انتقام کے دن کا سامنا کر نا ہو گا۔

وَ لَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَہُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور بتحقیق ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔

اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ (اس رسول نے کہا) کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔

17۔ 18 قوم فرعون کی آزمائش حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توسط سے ہوئی اور موسیٰ کا مدعا علیہ السلام یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو۔ اَدُّوۡۤا حوالے کرو کے معنی میں زیادہ مناسب ہے۔

عِبَادَ اللّٰہِ سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ اس لفظ میں بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ کی طرف سے مہربانی کا اظہار ہے، چونکہ وہ فرعون کی طرف سے عذاب میں تھے۔

وَّ اَنۡ لَّا تَعۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ ۚ اِنِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ اور اللہ کے مقابلے میں برتری دکھانے کی کوشش نہ کرو، میں تمہارے پاس واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔

وَ اِنِّیۡ عُذۡتُ بِرَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ اَنۡ تَرۡجُمُوۡنِ ﴿۫۲۰﴾

۲۰۔ اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ میں آ گیا ہوں (اس بات سے) کہ تم مجھے سنگسار کرو۔

20۔ تَرۡجُمُوۡنِ : الرجم سنگسار کرنے کو کہتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام سے اس کی قوم نے کہا: اگر باز نہ آئے تو تمہیں سنگسار کر دیا جائے گا: لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِیۡنَ ۔ (شعراء: 116) حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آذر نے کہا: اگر باز نہ آئے لَاَرۡجُمَنَّکَ میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ (مریم:46)

یہاں الرجم سے الزام لگانے کے معنی مراد لینا خلاف ظاہر ہے۔ چونکہ وہ تہمت اور الزام لگاتے رہے۔ اس کے لیے عُذۡتُ پناہ میں آ گیا ہوں، کی سیاق سے مناسبت نہیں ہے۔