آیات 10 - 11
 

فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ پس آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لے کر آئے گا،

یَّغۡشَی النَّاسَ ؕ ہٰذَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ عذاب دردناک ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ فَارۡتَقِبۡ: اس آیت کی دو تفسیرمیں منقول ہیں:

پہلی تفسیر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت جب بڑھ گئی تو آپ نے کفار قریش کے خلاف بددعا کی:

خدایا یوسف کے قحط کی طرح قحط سے میری مدد فرماتا۔ چنانچہ شدید قحط پڑا لوگ مردار چمڑے تک کھا گئے۔ بھوک سے لوگوں کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ آسمان کی طرف دیکھتے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔

اس روایت کے تحت دھویں سے مراد حقیقی دھواں نہیں ہے۔ بھوک کی وجہ سے نظریں پھیرنے والی دھویں کی مانند تاریکی تھی۔ ان لوگوں نے وعدہ کیا کہ اگر یہ بلا ٹل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے لیکن یہ لوگ بلا ٹلنے کے بعد ایمان نہیں لائے۔

دوسری تفسیر یہ ہے:

قیامت کے قریب چند ایک علامات ایسی ظاہر ہونے والی ہیں جو قیامت نزدیک ہونے کی علامات ہوں گی۔ ان میں سے ایک دھواں ہے۔

امامیہ و غیر امامیہ مصادر میں یہ روایت متعدد طرق سے منقول ہے کہ یہ دھواں قیامت کے قریب کی علامات میں سے ایک ہے۔ غیر امامیہ مآخذ میں آیا ہے کہ قیامت کی علامات میں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دھواں، دابۃ الارض ، یا جوج و ماجوج کا خروج، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، عدن سے آگ کا نکلنا اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسا شامل ہے۔ امامیہ مآخذ میں ان مذکورہ علامات کے علاوہ سفیانی اور دجال کا خروج اور حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کے ظہور کا اضافہ ہے۔

لیکن آیت ۱۰ سے ۱۵ تک کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے پہلی تفسیر قرین واقع ہے چونکہ ان آیات میں لوگوں کا رسول سے منہ پھرنے اور رسول کو مجنون کہنے کا ذکر ہے۔

۲۔ یہ دھواں ایسا تھا جس نے سب لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا اور ساتھ عذاب بھی ہے۔ اگر یہ قحط ہے تو بھی یہ تعبیر درست ہے کہ اس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور عَذَابٌ اَلِیۡمٌ بھی ہے۔


آیات 10 - 11