آیات 17 - 18
 

وَ لَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَہُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور بتحقیق ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔

اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ (اس رسول نے کہا) کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔

تفسیر آیات

قوم فرعون کی آزمائش حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توسط سے ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مدعا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے حوالے کرو۔ اَدُّوۡۤا کے معنی حوالہ کرو زیادہ مناسب ہے اور عِبَادَ اللّٰہِ سے مراد بنی اسرائیل ہو سکتے ہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جسے سورۃ الشعراء آیت ۱۷ میں فرمایا:

اَنۡ اَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ

کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔

یعنی جانے دے۔

اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ: میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔ بنی اسرائیل کو میرے حوالہ کرو کا مطالبہ کوئی دھوکہ نہیں ہے۔ اس میں کسی قسم کی خیانت کا شائبہ نہیں ہے۔


آیات 17 - 18