وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کروں اور وہ اپنے رب کو پکارے مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد برپا کرے گا۔

26۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حیرت انگیز معجزات دیکھ کر فرعون کے درباریوں میں اس قسم کی سوچ موجود تھی کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے دعویٰ میں سچے ہو سکتے ہیں، لہٰذا ان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے میں تأمل سے کام لینا چاہیے۔ اس لیے جب پہلی بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اژدھے اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا تو درباریوں نے کہا: اَرْجِہْ وَاَخَاہُ (شعراء : 36) اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دے دو۔ اس جگہ فرعون کا یہ کہنا : مجھے چھوڑو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کروں، قرینہ بنتا ہے کہ کچھ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے حق میں نہ تھے۔ چنانچہ اگلی آیت میں اس مومن کا ذکر بھی آ گیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے حق میں نہ تھے۔