آیت 29
 

یٰقَوۡمِ لَکُمُ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ظٰہِرِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ فَمَنۡ یَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰہِ اِنۡ جَآءَنَا ؕ قَالَ فِرۡعَوۡنُ مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی وَ مَاۤ اَہۡدِیۡکُمۡ اِلَّا سَبِیۡلَ الرَّشَادِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے میری قوم! آج تمہاری بادشاہت ہے اور ملک میں تم غالب ہو پس اگر ہم پر اللہ کا عذاب آگیا تو ہماری کون مدد کرے گا؟ فرعون نے کہا: میں تمہیں صرف وہی رائے دوں گا جسے میں صائب سمجھتا ہوں اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو درست ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰقَوۡمِ لَکُمُ الۡمُلۡکُ: آل فرعون کا یہ مومن اپنے ایمان کا کھل کر اظہار نہیں کر رہے ہیں بلکہ فرعون کا خیر خواہ ظاہر کر کے کہتے ہیں: آج تمہاری حکومت ہے۔ آج تمہاری بالادستی ہے۔ اپنی عاقبت کا سوچو۔

۲۔ فَمَنۡ یَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰہِ اِنۡ جَآءَنَا: اگر ہم پر عذاب آ گیا تو ہماری کون مدد کرے گا۔ یہ لہجہ بظاہر غیرجانبدارانہ ہے لیکن فی الواقع ایک دعوت فکر ہے۔

۳۔ قَالَ فِرۡعَوۡنُ مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی: فرعون اپنی رائے کے صائب ہونے پر مصر ہے۔ جیساکہ ہر جابر کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں بدمست ہوتا ہے اور کبھی اپنے فردا کے بارے میں نہیں سوچتا، نہ ہی کسی ناصح کی نصیحت پر توجہ دیتا ہے۔


آیت 29