وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہنے لگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے؟ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اس کے خلاف جائے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں سے کچھ تو تم پر واقع ہو ہی جائے گا، اللہ یقینا تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔

28۔ جابروں اور تنگ نظروں سے خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں حق کا چھپانا جابروں کے لیے باعث ننگ و عارہے، حق چھپانے والے کے لیے نہیں۔ جیسا کہ نظریہ خلق قرآن کے بارے میں بنی عباس کے تنگ نظر جابروں کے سامنے علماء کو اپنا نظریہ چھپانا پڑا تھا۔ چنانچہ مومن آل فرعون اپنی تقریر میں حق کو برملا ظاہر نہیں کرتے، بلکہ بظاہر تردد کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کی سزا ضرور ملے گی، تمہیں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ سچے ہیں تو وہ جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں، اس میں سے کچھ تو وقوع پذیر ہو گا۔