آیت 28
 

وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہنے لگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے؟ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اس کے خلاف جائے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں سے کچھ تو تم پر واقع ہو ہی جائے گا، اللہ یقینا تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ: فرعون کے درباریوں میں ایک قبطی، بقولے فرعون کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا۔ یہ وہی حزقیل علیہ السلام ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ارادہ قتل سے آگاہ کیا تھا۔ انہی کے مشورے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہجرت فرمائی۔

۲۔ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ: یہ مومن اپنا ایمان چھپاتا تھا۔ ایمان چھپا کر اپنے آپ کو تحفظ بھی دیتا اور اس تقیہ کی وجہ سے اولوالعزم رسول کو بچانے کا موقع بھی میسر آتا تھا۔ چنانچہ دو اہم اور خطرناک مقامات پر اس مومن نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچایا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

التقیۃ من دینی و دین آبائی ولا دین لمن لا تقیۃ لہ والتقیۃ ترس اللہ فی الارض لان مومن آل فرعون لو اظہر الاسلام لقتل۔ (بحار الانوار۱۳: ۱۵۸)

تقیہ میرے اور میرے آباء کے دین میں سے ہے۔ جو تقیہ نہیں کرتا اس کا دین نہیں ہے۔ تقیہ روئے زمین پر اللہ کی سپر ہے۔ اگر مومن آل فرعون اسلام ظاہر کرتا تو قتل ہو جاتا۔

سورہ قصص آیت ۲۰ میں بھی اس مومن کا ذکر آیا ہے۔ حدیث نبوی ؐہے:

الصدیقون ثلاثۃ حبیب النجار مومن آل یاسین و مومن آل فرعون الذی قال اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ و الثالث علی بن ابی طالب و ھو افضلہم۔ ( تفسیر رازی ذیل آیہ)

صدیق تین ہیں: حبیب النجار مومن آل یاسین اور مومن آل فرعون جس نے کہا تھا کہ تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔ تیسرے علی بن ابی طالب ہیں جو ان میں افضل ہیں۔

افضل الانبیاء و الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تحفظ دینے والے کا سب صدیقوں سے افضل ہونا قدرتی بات ہے۔ پھر حضرت علی علیہ السلام نے صرف شب ہجرت بستر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سو کر اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کیا بلکہ شعب ابی طالب میں ہمیشہ خطرے کے وقت حضرت ابو طالب علیہ السلام اپنے بیٹے علیہ السلام کو بستر رسول پر سلاتے تھے۔ اور جنگ احد میں حضرت علی علیہ السلام نے ہی حضرت ختم المرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تحفظ فراہم فرمایا۔

۳۔ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ: کیا تم اس شخص کو اس جرم میں قتل کرو گے کہ یہ اللہ کو رب تسلیم کرتا ہے۔ کسی پر ہاتھ دراز نہیں کیا، کسی کو ضرر نہیں پہنچایا، اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ کسی کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کر ڈالنا کس قدر بڑا جرم ہے۔

۴۔ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ: پھر وہ اپنے عقیدے پر واضح دلیل بھی پیش کرتا ہے۔ دلیل نہ ماننا تو جرم ہو سکتا ہے لیکن دلیل پیش کرنا تو کوئی جرم نہیں ہے۔

۵۔ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ: جابروں اور تنگ نظروں سے خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں حق چھپانا جابروں کے لیے باعث ننگ و عار ہے، حق چھپانے والے کے لیے نہیں۔

چنانچہ جو لوگ حکمرانوں کے ہم مذہب رہے ہیں ان کے لیے تقیہ کی نوبت نہیں آتی تھی۔ البتہ انہیں تقیہ کا تجربہ ایک بار ہو گیا تھا جب خلق قرآن کے بارے میں بنی عباس کے تنگ نظر جابروں کے سامنے اہل سنت کے علماء کو بھی اپنا نظریہ چھپانا پڑاتھا۔

چنانچہ مومن آل فرعون اپنی تقریر میں حق کا برملا اظہار نہیں کرتے بلکہ بظاہر تردد کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر موسی جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اس کے خلاف جائے گا تمہیں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۶۔ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا: اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو جس عذاب سے یہ ڈرا رہے ہیں اس میں سے کچھ عذاب تو آنے والا ہے۔

۷۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ: خواہ یہ تجاوز کار کوئی ہو اسے اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ اگر موسیٰ ایسا ہے تو اللہ اسے کامیاب نہیں ہونے دے گا۔


آیت 28