مِثۡلَ دَاۡبِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ وَ مَا اللّٰہُ یُرِیۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعِبَادِ﴿۳۱﴾

۳۱۔ جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی امتوں پر آیا تھا اور اللہ تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

31۔ اللہ کو نہ تو بندوں سے کوئی عداوت ہے کہ جذبہ انتقام میں آ کر عذاب دے، نہ تو کوئی ایسا مفاد ہے جو عذاب دینے سے وابستہ ہو، بلکہ یہ عذاب و ثواب اس کے نظام عدل کا لازمی حصہ ہے کہ مومن اور کافر، مجرم اور مسلم یکساں نہیں ہو سکتے۔

وَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ یَوۡمَ التَّنَادِ ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ اور اے میری قوم! مجھے تمہارے بارے میں فریاد کے دن (قیامت) کا خوف ہے۔

32۔ یَوۡمَ التَّنَادِ : فریاد کا دن، سے مراد روز قیامت ہے، جس میں کافر لوگ مدد کے لیے پکاریں گے مگر کوئی جواب نہیں ملے گا۔

یَوۡمَ تُوَلُّوۡنَ مُدۡبِرِیۡنَ ۚ مَا لَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ عَاصِمٍ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ﴿۳۳﴾

۳۳۔ جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے تمہیں اللہ (کے عذاب) سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔

وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَکُمۡ بِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ مُّرۡتَابُۨ ﴿ۚۖ۳۴﴾

۳۴۔ اور بتحقیق اس سے پہلے یوسف واضح دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے مگر تمہیں اس چیز میں شک ہی رہا جو وہ تمہارے پاس لائے تھے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم کہنے لگے: ان کے بعد اللہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کرے گا اس طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے جو تجاوز کرنے والے، شک کرنے والے ہوتے ہیں۔

34۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے دور حکومت میں عدل و انصاف کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ خواب کی صحیح تعبیر کے ذریعے تمہیں اور بہت سے انسانوں کو قحط سے بچایا۔ تم نے ان کی نبوت پر شک کیا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو تم نے کہا: اب عدل و انصاف کا دور دوبارہ نہیں آ سکتا۔ یعنی جب تمہیں ہدایت مل رہی ہوتی ہے، اس وقت تم اسے ٹھکرا دیتے ہو، لیکن اس ہدایت کے اٹھنے کے بعد تمہیں اس کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔

الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰہُمۡ ؕ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عِنۡدَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلۡبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ﴿۳۵﴾

۳۵۔ جو اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر ایسی دلیل کے جو اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہو (ان کی) یہ بات اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے، اسی طرح ہر متکبر، سرکش کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔

35۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مُسۡرِفٌ یعنی حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔ مُّرۡتَابُۨ یعنی شک کرنے والے تھے۔ یُجَادِلُوۡنَ یعنی دلیل و سند کے بغیر حق کے بارے میں کج بحثی کرنے والے تھے۔ ان تین خصلتوں کی وجہ سے وہ اس قابل نہ رہے کہ اللہ ان کو اپنی رحمت کے دائرے میں رکھے۔

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ اور فرعون نے کہا: اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ، شاید میں راستوں تک رسائی حاصل کر لوں،

اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا ؕ وَ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا کَیۡدُ فِرۡعَوۡنَ اِلَّا فِیۡ تَبَابٍ ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔ آسمانوں کے راستوں تک، پھر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ لوں اور میرا گمان یہ ہے کہ موسیٰ جھوٹا ہے، اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی کو خوشنما بنا دیا گیا اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا اور فرعون کی چال تو صرف گھاٹے میں ہے۔

37۔ اس موضوع سے متعلق حاشیہ سورئہ القصص آیت 38 میں گزر چکا ہے۔

فرعون اس مومن کے منطقی استدلال کا جواب تو نہ دے سکا، البتہ ایک تمسخر کے طور پر کہ دیا ہو گا: موسیٰ علیہ السلام کا خدا زمین پر تو ہے نہیں، آسمان میں دیکھتا ہوں۔ بعض کا خیال ہے کہ فرعون موسیٰ علیہ السلام کا خدا تلاش کرنے کے لیے ایک رصدگاہ بنانا چاہتا تھا تاکہ اپنی قوم کو دھوکہ دے سکے کہ موسیٰ کا کوئی خدا نہیں ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡۤ اٰمَنَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوۡنِ اَہۡدِکُمۡ سَبِیۡلَ الرَّشَادِ ﴿ۚ۳۸﴾

۳۸۔ اور جو شخص ایمان لایا تھا بولا: اے میری قوم! میری اتباع کرو، میں تمہیں صحیح راستہ دکھاتا ہوں۔

38۔ یہ مومن فرعون کی غیر منطقی باتوں کو اعتنا میں لائے بغیر اپنے پیغمبرانہ فرامین کو جاری رکھتے ہیں اور دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی میں موازنہ پیش کر کے ضمیروں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مومن آل فرعون نے جب بے باکی کے ساتھ حق گوئی کا مظاہرہ کیا تو فرعون کی طرف سے ردعمل کے طور پر اس کے خلاف بہت کچھ ہو سکتا تھا، مگر اس مومن نے اپنا معاملہ جب اللہ کے سپرد کیا تو اللہ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ نے اسے اپنی رحمت کے دامن میں جگہ دی۔

یٰقَوۡمِ اِنَّمَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا مَتَاعٌ ۫ وَّ اِنَّ الۡاٰخِرَۃَ ہِیَ دَارُ الۡقَرَارِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اے میری قوم! یہ دنیاوی زندگی تو صرف تھوڑی دیر کی لذت ہے اور آخرت یقینا دائمی قیام گاہ ہے۔

مَنۡ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا ۚ وَ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ یُرۡزَقُوۡنَ فِیۡہَا بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۴۰﴾

۴۰۔ جو برائی کا ارتکاب کرے گا اسے اتنا ہی بدلہ ملے گا اور جو نیکی کرے گا وہ مرد ہو یا عورت اگر صاحب ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جس میں انہیں بے شمار رزق ملے گا ۔

40۔ ایک اہم نکتے کی وضاحت ہو گئی۔ وہ یہ کہ گناہ کی مناسبت سے سزا مل جائے گی، لیکن نیکی کے ثواب کے لیے کوئی حد متعین نہیں ہے۔ یہاں جو ثواب ملے گا، اسے وصف و حساب میں نہیں لایا جا سکتا نیز اس بات کی بھی وضاحت ہو گئی کہ عمل و ایمان کے اعتبار سے مرد اور عورت برابر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے عمل کے مطابق جزا و سزا ملے گی۔ یوں اس جاہلی مؤقف کو مسترد کر دیا کہ عورت ناپاک جنس ہے۔