آیت 26
 

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کروں اور وہ اپنے رب کو پکارے مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد برپا کرے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی: فرعون کا یہ کہنا کہ مجھے موسیٰ کو قتل کرنے دو، بتاتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی رکاوٹ تھی ورنہ وہ بہت پہلے انہیں قتل کر چکا ہوتا۔

سورہ اعراف آیت ۱۱۱ اور سورہ شعراء آیت ۳۶ میں قتل نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلی بار فرعون کے دربار میں عصا اور ید بیضا کے دو عظیم معجزے دیکھائے تو فرعون نے اپنے درباریوں سے پوچھا تھا کہ تمہارا کیا خیال ہے موسیٰ و ہارون کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ یہ دونوں جادوگر ہیں تو درباریوں نے رائے دی تھی: اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۱۱) اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو۔

ممکن ہے مہلت کا مشورہ اس لیے دیا ہو کہ اگر فوری قتل کیا جائے تو لوگ انہیں سچے نبی تسلیم کریں گے۔ بہتر یہ ہے کہ جادو کا توڑ جادو سے کیا جائے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حیرت انگیز معجزات دیکھ کر فرعون کے درباریوں میں اس قسم کی سوچ موجود تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دعویٰ میں سچے ہو سکتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے میں تأمل سے کام لینا چاہیے۔ چنانچہ اگلی آیت میں اس مومن کا ذکر آتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے حق میں نہ تھے۔

۲۔ وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ: پوری رعونت اور تکبر کے لہجے میں کہتا ہے: میں اسے قتل کرنے لگوں تو وہ اپنے رب کو مدد کے لیے پکارے کہ میرے ہاتھ قتل ہونے سے آ کر بچا لے۔

۳۔ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ: مجھے خطرہ ہے کہ موسیٰ تمہارا دین بدل ڈالے گا۔ اس خطرے کی وجہ یہ تھی کہ فرعونی سلطنت ان کے مذہبی نظریے پر قائم تھی۔ نظریہ یہ تھا: سلطنت و اقتدار کے معبود سورج ( عشتار ) کا زمین میں نمائندہ فرعون ہے لہٰذا اس کی سلطنت کا جواز اپنے معبود کا نمایندہ ہونا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غیر اللہ معبودوں کی نفی کی اور خود کے رب العالمین کا نمایندہ (رسول) ہونے کا اعلان کیا تو اس کا مطلب فرعون کے دین و سلطنت کی نفی تھی۔

۴۔ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ: اگر پوری طرح دین تبدیل کرنے میں کامیاب نہ بھی ہوا اس کی دعوت سے زمین میں فساد ضرور برپا ہو گا۔ موجودہ یک طرفہ نظریہ ختم ہو جائے گا۔ دو نظریے وجود میں آئیں گے۔ اس طرح ملک میں فساد برپا ہو گا۔

فساد کے خطرے کا احساس ثابت کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو پذیرائی مل رہی تھی اور فرعون کی سلطنت کا یہ پروپیگنڈہ کہ یہ جادوگر ہے، موثر واقع نہیں ہو رہا تھا۔


آیت 26