آیات 56 - 58
 

اَنۡ تَقُوۡلَ نَفۡسٌ یّٰحَسۡرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطۡتُّ فِیۡ جَنۡۢبِ اللّٰہِ وَ اِنۡ کُنۡتُ لَمِنَ السّٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۶﴾

۵۶۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے: افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔

اَوۡ تَقُوۡلَ لَوۡ اَنَّ اللّٰہَ ہَدٰىنِیۡ لَکُنۡتُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۵۷﴾

۵۷۔ یا وہ کہے: اگر اللہ میری ہدایت کرتا تو میں متقین میں سے ہو جاتا۔

اَوۡ تَقُوۡلَ حِیۡنَ تَرَی الۡعَذَابَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ کَرَّۃً فَاَکُوۡنَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ یا عذاب دیکھ کر یہ کہے: اگر مجھے واپس (دنیا میں) جانے کا موقع ملتا تو میں نیکی کرنے والوں میں سے ہو جاتا۔

تشریح کلمات

جَنۡۢبِ اللّٰہِ:

العین کے مطابق جنب شان کے معنوں میں ہے۔ کہا جاتا ہے: اتق اللّٰہ فی جنب اخیک۔ ای فی شانہ۔

تفسیر آیات

راغب کہتے ہیں جَنۡۢبِ اللّٰہِ سے مراد اللہ تعالیٰ کے اوامر اور حدود ہیں جو اس نے ہمارے لیے مقرر فرمائی ہیں۔ جنب کا معنی قربت ہے ۔یعنی قیامت کے دن اس کوتاہی پر افسوس ہو گا جو قرب الٰہی کے حصول میں سرزد ہوئی ہے۔ اگر شان معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ قیامت کے دن اس کوتاہی پر افسوس ہوگا جو شان الٰہی کے بارے میں سرزد ہوئی۔

۱۔ اَنۡ تَقُوۡلَ نَفۡسٌ یّٰحَسۡرَتٰی: توبہ و انابت، تسلیم و رضا اور اتباع و اطاعت کے مراحل اچھی طرح طے کرنے کا حکم دیا۔ کہیں اس بات پر کف افسوس ملنا نہ پڑے کہ اللہ کی اطاعت، اللہ کی شان میں کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ کُنۡتُ لَمِنَ السّٰخِرِیۡنَ: جو گستاخی یا کوتاہی اللہ کی شان میں سرزد ہوئی وہ یہ تھی کہ میں حدود اللہ یا اللہ کے نمائندے کا مذاق اڑاتا تھا۔

۳۔ اَوۡ تَقُوۡلَ لَوۡ اَنَّ اللّٰہَ ہَدٰىنِیۡ: ہم نے مذکورہ احکام اس لیے صادر کیے کہ کل روز قیامت جب تمہارا سامنا حساب کتاب سے ہو گا تو یہ نہ کہو کہ اگر اللہ ہماری ہدایت فرماتا تو ہم اسے مان لیتے۔ لو ہم اب ہم ہدایت دے رہے ہیں، مان جاؤ۔

۴۔ اَوۡ تَقُوۡلَ حِیۡنَ تَرَی الۡعَذَابَ: ہم مذکورہ دستور اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ کل قیامت کے دن جب تم عذاب الٰہی کا مشاہدہ کرو گے تو یہ نہ کہو: ایک مرتبہ دنیا میں جانے کا موقع مل جاتا تو میں جی بھر کر نیکی کرتا۔


آیات 56 - 58