آیت 53
 

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۵۳﴾

۵۳۔ کہدیجئے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔

تشریح کلمات

قنط :

( ق ن ط ) قنوط راغب کے مطابق کسی خیر سے ناامید ہونا۔ دیگر نے خیر کی قید نہیں لگائی۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ یٰعِبَادِیَ: اے میرے بندو۔ محبت بھرا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ میرے بندو کہہ کر ندا دینے میں ایک امید، ایک نوید رحمت ہے۔ عبادی کی تعبیر میں بندگی اور عبودیت کے رشتے کی طرف اشارہ ہے جو عبد اور معبود میں قائم ہے۔ جس کے تحت عبد کی ذمہ داری اطاعت و بندگی ہے اور مولا کے ذمے رحمت و مغفرت ہے۔

۲۔ عبادی: اس جگہ عبادی سے مراد تمام انسان ہیں، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مسلم، غیر مسلم سب کے لیے عبادی کی تعبیر اختیار فرمائی ہے:

وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ﴿۱۳﴾ (۳۴ سباء: ۱۳)

اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۱۸)

اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔

بعض نے تو یہ کہا ہے کہ عبادی سے مراد صرف مشرکین ہیں۔

۳۔ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ: اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے۔ اس میں بھی مسلم اور مشرک دونوں شامل ہیں۔ شرک، اسراف علی النفس میں سرفہرست ہے۔

۴۔ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ مایوس نہ ہونے کا حکم عام ہے۔ سب گناہ گاروں کے لیے لیکن یہ عام ہے ان لوگوں کے لیے جو رحمت الٰہی کے طالب ہوں اور جو لوگ اللہ کی رحمت کے طالب ہی نہیں ہیں ان کے لیے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ لہٰذا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم دنیوی زندگی میں مؤمن اور مشرک دونوں کے لیے ہے جب توبہ کر کے اللہ کی رحمت کے طلبگار ہوں۔ یہ توبہ موت سامنے آنے سے پہلے ہونی چاہیے۔ ارشاد فرمایا:

وَ لَیۡسَتِ التَّوۡبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَ ہُمۡ کُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۸﴾ (۴ نساء: ۱۸)

اور ایسے لوگوں کی توبہ (حقیقت میں توبہ ہی) نہیں جو برے کاموں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ کہ اٹھتا ہے: اب میں نے توبہ کی اور نہ ہی ان لوگوں کی (توبہ قبول ہے) جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

دیگر آیات میں ان لوگوں کے لیے عدم مغفرت کا ذکر ہے جو کفر و فسق کی حالت میں مرتے ہیں:

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہَبًا۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۹۱)

جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی سے اس قدر سونا بھی، جس سے روئے زمین بھر جائے، ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ﴿۳۴﴾ (۴۷ محمد: ۳۴)

یقینا جنہوں نے کفر کیا اور راہ خدا سے روکا پھر کفر کی حالت میں مر گئے تو اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔

آخرت میں یہ نوید صرف مومن کے لیے ہے اور مشرک کے لیے آخرت میں مغفرت کا کوئی امکان نہیں ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۴۸)

اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا۔

۵۔ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ: اللہ کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے:

وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ( ۷ اعراف: ۱۵۶)

اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔

یہ رحمت دنیا میں مومن ،کافر، مشرک سب کو شامل ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی رحمت میں شمول کے لیے ضابطہ موجود ہے:

قَالَ وَ مَنۡ یَّقۡنَطُ مِنۡ رَّحۡمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوۡنَ﴿۵۶﴾ (۱۵ حجر:۵۶)

اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

۶۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا: اللہ سب گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ چونکہ اللہ کی رحمت تمام گناہوں سے زیادہ وسیع ہے۔ دعا میں وارد ہے:

وَ رَحْمَتُکَ اَوْسّعُ مِنْ ذُنُوبِی۔۔۔۔ ( الکافی۲: ۵۸۰)

اور تیری رحمت میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے۔

لہٰذا کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو معاف نہ ہو سکے۔ حتیٰ شرک کا گناہ بھی معاف ہو جائے گا جو سب گناہوں سے بہت بڑا گناہ اور جرم ہے لیکن یہ مغفرت بے ضابطہ نہیں ہے۔

قاعدے اور ضابطے کے تحت سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور وہ ہے توبہ۔ توبہ کی صورت میں تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا، رحمت خدا سے مایوس وہ لوگ نہیں ہوں گے جو اس کی رحمت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو رحمت کا طالب ہی نہیں ہوتا اس کے لیے اس بات کی نوبت نہیں آتی کہ اس کے گناہ معاف ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ توبہ نہ کرنے والوں کا تو ذکر ہی نہیں ہے بلکہ وہ توبہ بھی قبول نہ ہو گی جو موت سامنے آنے کی صورت میں کی جائے جیسا کہ پہلے ذکر ہو گیا جس کی صراحت سورہ نساء آیت ۱۸ میں موجود ہے۔ لہٰذا وہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے جو کہتا ہے کہ آیت میں مشرک کے علاوہ سب شامل ہیں، خواہ توبہ کریں یا نہ کریں۔

روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اسْتَغْفِرُوا بَعْدَ الذَّنْبِ اَسْرَعَ مِنْ طَرْفَۃِ عَیْنٍ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْاِنْفَاقِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِکَظْمِ الْغَیْظِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْعَفْوِ عَنِ النَّاسِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالْاِحْسَانِ اِلَیْھِمْ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِتَرْکِ لْاِصْرَارِ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَبِالرَّجَائِ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ۔ (مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۲۴)

گناہ کرنے کے بعد چشم زدن میں مغفرت مانگو۔ نہ ہو سکے تو راہ خدا میں کچھ خرچ کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو غصہ پی کر مانگو۔ نہ ہو سکے تو لوگوں کو معاف کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو لوگوں پر احسان کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو اصرار کرنا ترک کر کے مانگو۔ نہ ہو سکے تو امید رکھ کر مانگو: لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

ما فی القرآن ایۃ اوسع من یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا۔۔۔۔ (کنز العمال ۲: ۴۹۲)

قرآن میں اس آیت سے زیادہ گنجائش والی آیت موجود نہیں ہے: یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ یہ بندہ خود رحمت خدا کے لائق نہیں بنتا ورنہ اللہ کے نزدیک سب لائق رحمت ہیں۔

۲۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔


آیت 53