آیات 171 - 173
 

وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۱۷۱﴾ۚۖ

۱۷۱۔ اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔

اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ﴿۱۷۲﴾۪

۱۷۲۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں،

وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا: مکہ کے دل شکن حالات میں نازل ہونے والی اس سورت میں غیر مبہم الفاظ میں فتح و غلبہ کی یہ نوید صفحہ تاریخ پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔ کلمۃ یعنی اللہ کا حتمی فیصلہ اور یقینی وعدہ۔

اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسولوں کو ایک مقصد اور ایک منزل کا تعین کر کے اس کی طرف روانہ فرمایا ہے تو اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ مرسلین اپنے مشن میں کامیاب رہیں گے۔ اللہ ناکام ہونے والے مشن کی طرف نہیں بھیجتا البتہ مرسلین کو اس کامیابی کے لیے انتہائی مشکلات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اللہ کے اس فیصلے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بلازحمت چشم زدن میں کامیابی مل جایا کرے گی۔ فرمایا:

حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا۔۔۔۔ (۱۲ یوسف:۱۱۰)

یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوں سے) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی۔

نصرت و غلبہ کے اس وعدے کا مطلق ذکر فرمایا لہٰذا اس میں دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی ہے جب کہ دوسری جگہ فرمایا:

اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿۵۱﴾ (۴۰ مومن: ۵۱)

ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہیں گے اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

۲۔ وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ: غالب آنے کا مطلب وہ نہیں جو وقتی نگاہ سے دیکھنے والے کو نظر آتا ہے کہ فرعون و نمرود کو جو بالادستی حاصل ہے وہ ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام کو حاصل نہیں ہے۔یزید کی وسیع حکومت قائم ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور مدینے کے مہاجرین و انصار بے بس ہیں، آج استعماری قوتوں کو بالادستی ہے حاصل ہے اور حق کے ماننے والے مسلمان تہی دست ہیں، بلکہ غالب آنے سے مراد یہ ہے کہ آج نمرود و فرعون کی طاقت خاک میں مل گئی لیکن کرۂ ارض پر ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام کا بول بالا ہے۔ ابوجہل تاریخ کی تاریک تہوں میں دفن ہو گیا مگر عبداللہ کے یتیم زندہ و تابندہ ہیں۔ یزید کا نام داخل دشنام ہے جب کہ حسین علیہ السلام کا نام فاتحین میں سرفہرست ہے۔

جُنۡدَ لشکر کو کہتے ہیں اور جُنۡدَنَا ہمارا لشکر، اس الٰہی جماعت کو کہتے ہیں جو عیار دشمن کے خلاف برسرپیکار ہو۔ لہٰذا اس جملے میں اشارہ ہے کہ لشکر اور مجاہد ہونے کی صورت میں غلبہ ہے اور اگر دشمن کے خلاف صف بستہ ہونے کی بجائے دشمن کی صفوں میں شامل ہو جائیں تو نہ صرف فتح و غلبہ کا وعدہ نہیں ہے بلکہ اس کا قدرتی نتیجہ ذلت و رسوائی ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ ہمارا لشکر غالب آئے گا۔ ہمارا غدار نہیں۔


آیات 171 - 173