تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَ تُــٔۡوِیۡۤ اِلَیۡکَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ تَقَرَّ اَعۡیُنُہُنَّ وَ لَا یَحۡزَنَّ وَ یَرۡضَیۡنَ بِمَاۤ اٰتَیۡتَہُنَّ کُلُّہُنَّ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَلِیۡمًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ آپ ان بیویوں میں سے جسے چاہیں علیحدہ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جسے آپ نے علیحدہ کر دیا ہو اسے آپ پھر اپنے پاس بلانا چاہتے ہوں تو اس میں آپ پر کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ اس لیے ہے کہ اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی آپ انہیں دیں وہ سب اسی پر راضی ہوں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بردبار ہے۔

51۔ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ازواج کی بہت سی الجھنوں سے آزاد کر دیا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس طرح چاہیں اپنی ازواج کے ساتھ برتاؤ کریں۔ لیکن روایات کے مطابق حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس اختیار کے باوجود سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا۔

لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَ لَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکَ حُسۡنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ رَّقِیۡبًا﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ اس کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس بات کی اجازت ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں خواہ ان (دوسری) عورتوں کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو سوائے ان (کنیز) عورتوں کے جو آپ کی ملکیت میں ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔

52۔ مِنْۢ بَعْدُ : کی دو تفسیریں ہیں۔: اول یہ کہ جن عورتوں کا آیت 50 میں ذکر آیا ہے، ان کے بعد دوسری عورتیں آپ کے لیے حرام ہیں۔ دوم یہ کہ جب آپ کی ازواج اس بات پر راضی ہیں کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ساتھ جو چاہیں برتاؤ کریں، اس کے بعد آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے حلال نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دیں اور اس کی جگہ کسی اور سے شادی کریں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ ۙ وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمًا﴿۵۳﴾

۵۳۔ اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے اور نہ ہی پکنے کا انتظار کرو، لیکن جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف پہنچاتی ہے مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں لیکن اللہ حق بات کرنے سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے تمہیں یہ حق نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو، بتحقیق یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔

53۔ اسلامی آداب و تہذیب رائج ہونے سے پہلے عربوں کے ہاں گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے کا رواج عام تھا۔ اس آیت میں شروع میں یہ حکم آیا کہ نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوں۔ بعد میں سورئہ نور میں تمام مسلمانوں کے گھروں میں جانے کے لیے اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا۔ دوسری بری عادت ان میں یہ تھی کہ انہیں کسی کے ہاں جانا ہوتا تو کھانے کے وقت پہنچ جاتے یا کھانے کے وقت تک بیٹھے رہتے۔ ادھر صاحب خانہ نہ تو انہیں اٹھا سکتا، نہ اس کی مالی حالت ایسی ہوتی کہ اچانک آنے والوں کو کھانا کھلائے۔ اس رسم بد سے نجات دلانے کے لیے حکم ہوا کہ کسی کے گھر کھانے کے وقت دعوت کے بغیر نہ جایا کریں۔ تیسری بری عادت یہ تھی کہ کھانے پر دعوت دی جائے تو کھانے کے بعد اٹھتے نہیں تھے۔ اس بارے میں حکم ہوا کہ کھانا کھا چکو تو اٹھ جایا کریں۔ چوتھی بات: ازواج رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے یہ حکم آیا کہ وہ غیر محرم مردوں کے سامنے نہ آئیں اور مردوں نے بھی کوئی چیز طلب کرنی ہو تو پردے کے پیچھے سے طلب کریں۔ پانچویں بات: طلحہ بن عبید اللہ صحابی نے کہا تھا: محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے بعد ہماری عورتوں سے شادی کرتے ہیں، ہم بھی ان کے بعد ان کی زوجات سے شادی کریں گے۔ اس صحابی کے قول سے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت ہوئی۔

اگر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج سے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے بعد شادی ممنوع نہ ہوتی تو لوگ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ازواج رسول سے شادی کر کے اپنا مقام بنانے اور سیاسی مقاصد حال کرنے کی کوشش کرتے جس سے اختلاف بڑھ جاتا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہانت ہوتی۔ چنانچہ لوگوں نے ازواج رسول سے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اِنۡ تُبۡدُوۡا شَیۡئًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا﴿۵۴﴾

۵۴۔ تم کسی بات کو خواہ چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تو یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

لَا جُنَاحَ عَلَیۡہِنَّ فِیۡۤ اٰبَآئِہِنَّ وَ لَاۤ اَبۡنَآئِہِنَّ وَ لَاۤ اِخۡوَانِہِنَّ وَ لَاۤ اَبۡنَآءِ اِخۡوَانِہِنَّ وَ لَاۤ اَبۡنَآءِ اَخَوٰتِہِنَّ وَ لَا نِسَآئِہِنَّ وَ لَا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ ۚ وَ اتَّقِیۡنَ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا﴿۵۵﴾

۵۵۔ (رسول کی) ازواج پر کوئی مضائقہ نہیں اپنے باپوں، اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی مسلم خواتین اور کنیزوں سے (پردہ نہ کرنے میں) اور اللہ کا خوف کریں، اللہ یقینا ہر چیز پر گواہ ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا﴿۵۶﴾

۵۶۔ اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔

56۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو متعدد اصحاب نے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے درود کے لیے جو الفاظ سکھائے ہیں ان کو درج ذیل اصحاب نے تھوڑے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے:

اللّٰھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آلِ ابراھیم و بارک علی محمد و علی اٰل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی اٰل ابراھیم انک حمید مجید ۔

1۔ابن عباس سے ابن جریر نے روایت کی ہے۔ 2۔ کعب بن عجرہ سے بخاری، مسلم اور نسائی نے روایت کی ہے۔ 3۔ ابو سعید خدری سے بخاری، نسائی اور ابن ماجہ نے۔ 4۔ ابو ہریرہ سے نسائی نے۔ 5۔ بریدۃ الخزاعی سے احمد بن حنبل و ابن مردویہ نے۔ 6۔ طلحہ سے ابن جریر نے۔ 7۔ ابو مسعود سے مسلم، نسائی وغیرہ نے۔ 8۔ ابو حمید ساعدی سے بخاری، مسلم، نسائی وغیرہ نے روایت کی ہے۔ صرف اس روایت میں آل کی جگہ ازواج و ذریت کا لفظ موجود ہے۔ ذریت اور آل کو ہم معنی تسلیم کیا جائے تو یہ روایت دوسری روایتوں کے مطابق ہو جاتی ہے۔ 9۔ ابو خارجہ سے نسائی اور احمد بن حنبل نے۔ 10۔ انس سے ابن مردویہ نے۔ 11۔ ابن مسعود سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔

جو لوگ آل محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد ہر مومن کو لیتے ہیں وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن میں آل فرعون اس کے ماننے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ نہ معلوم ان کو آل فرعون کیوں یاد آتے ہیں، جبکہ ان احادیث میں آل ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے: اے اللہ درود بھیج محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور آل محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا ہے، تو تحقیق اس بات پر ہونی چاہیے کہ آل ابراہیم علیہ السلام سے مراد کون ہیں؟ قرآن فرماتا ہے: فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ (نساء:54) ہم نے اٰل ابراہیم علیہ السلام کو کتاب و حکمت عنایت کی۔ چونکہ کتاب و حکمت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو عنایت ہوئی ہے، لہٰذا یہاں بھی آل سے مراد ذریت ہے۔ ثانیاً : اگر آل سے مراد ہر مومن ہے تو انہیں درود بھیجتے ہوئے آل کے ذکر سے کترانا نہیں چاہیے۔ جبکہ یہ حضرات ”صلی اللہ علیہ وسلم“ لکھتے اور کہتے ہیں اور آل کا ذکر نہیں کرتے۔ ثالثاً اگر آل سے مراد ہر مومن ہے تو پھر اصحاب و ازواج کے الگ ذکر کی کیا ضرورت ہے، جبکہ وہ بھی اہل ایمان کے ضمن میں آتے ہیں؟

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿٪۵۸﴾

۵۸۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ناکردہ (گناہ ) پر اذیت دیتے ہیں پس انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۵۹﴾

۵۹۔ اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجئے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

59۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے سارا بدن چھپ جاتا ہے۔ یُدۡنِیۡنَ ۔ اس لفظ کے بعد اِلَيَّ آ جائے تو قریب کے معنی بنتے ہیں اور اگر اس کے بعد عَلَی آ جائے تو ارخاء لٹکانے کے معنی بنتے ہیں۔ جیسے اس آیت میں ہے: وَدَانِيَۃً عَلَيْہِمْ ظِلٰلُہَا (الانسان:14)۔ لہٰذا آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ چادر کا ایک حصہ لٹکا دیا کرو۔ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ میں مِنۡ تبعیض کے لیے ہے۔ یہاں سے ہم چادر کا ایک حصہ سمجھ لیتے ہیں۔ سورہ نور میں فرمایا: اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ ان دونوں آیات سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ نہ گریبان کھلے رکھیں، نہ سر کے بال کھلے رکھیں، بلکہ چادروں کو نیچے رکھیں کہ کنیزوں کی طرح مبتذل نہ ہوں بلکہ باوقار نظر آئیں۔

اس چادر کو نیچی کرنے کے حکم کا مطلب کیا چہرہ چھپانا ہے؟ یا سر پیشانی گردن اور سینہ کو چھپانا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ بہرحال اس حجاب سے جو نتیجہ مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے ان خواتین کی شناخت ہو جائے جو وقار و شرافت اور عفت و پاکیزگی کی مالک ہیں اور مدینے کے اوباش ان کے بارے میں جسارت نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پردے سے عورت کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی طرف بری نگاہیں نہیں اٹھتیں۔ حجاب عفت کی پہچان اور عورت کا وقار ہے۔

لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿ۖۛۚ۶۰﴾

۶۰۔ اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں افواہیں پھیلاتے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھائیں گے پھر وہ اس شہر میں آپ کے جوار میں تھوڑے دن ہی رہ پائیں گے۔

60۔ تین قسم کے آدمیوں کا ذکر ہے: منافقین، بیمار دل والے یعنی ضعیف الایمان لوگ اور افواہیں پھیلانے والے۔ بعض کا یہ کہنا کہ یہ تمام اوصاف منافقین ہی کے ہیں، قرآن کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے۔