آیت 69
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا ﴿ؕ۶۹﴾

۶۹۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی تھی پھر اللہ نے ان کے الزام سے انہیں بری ثابت کیا اور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والوں کو ایمان والے کہنے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کبھی یہ خطاب مسلمانوں کے لیے مجموعی حیثیت میں ہوتا ہے۔ اس میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگ شامل ہیں۔ البتہ صرف منافقین کے لیے یہ خطاب نہیں ہوتا۔ اگر ان میں کمزور ایمان والے شامل ہوں تو اس خطاب سے انہیں متوجہ کرنا مقصود ہے کہ اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرو۔

۲۔ لحن کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمتیں لگانا شروع کر دی تھیں۔ چنانچہ حضرت زینب کے ساتھ شادی کے بارے میں اور مال کی تقسیم میں منافقین نے تہمت لگائی اور کچھ ضعیف الایمان لوگ منافقوں کے ہمنوا بن گئے تھے۔

۳۔ فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے اس تہمت سے بری کر دکھایا جو یہودیوں نے ان پر لگائی تھی۔ اس سے بھی معلوم ہوا یہودیوں نے ایسی نازیبا تہمتیں لگائی تھیں کہ جن سے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کوبری دکھایا۔ چنانچہ بائیبل میں ان تہمتوں کا ذکر ملتا ہے۔

۴۔ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا: چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی آبرومندی کا تحفظ فرمایا اور ایسا سامان فراہم فرمایا جن سے ان کی حرمت بحال ہو گئی۔

اہم نکات

۱۔ بدزبانوں سے نہ کوئی معاشرہ خالی ہے، نہ کوئی شخصیت محفوظ۔


آیت 69